برطانوی انتخابات 2024 پر ایک مختصر نظر

برطانوی انتخابات 2024 پر ایک مختصر نظر

یوکے اردو نیوز،5 جولائی: برطانوی عام انتخابات میں پارلیمنٹ کی 650 نشتوں کےلیے ہونے والی پولنگ مقامی وقت کے مطابق صبح 7 سے رات 10 بجے تک جاری رہی، جس میں تقریباً 5 کروڑ ووٹرز نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

انتخابات میں ملک بھر میں ووٹنگ کےلیے 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے۔وزیر اعظم رشی سونک، لیبر لیڈر سر کئیر اسٹارمر، لب ڈیم کے لیڈر سر ایڈ ڈیوی و دیگر رہنماؤں کی جانب سے ووٹ کاسٹ کیا گیا۔

پارلیمنٹ کی 650 نشستوں کیلئے اپوزیشن کی لیبر پارٹی، حکمران کنزریٹو پارٹی، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی، اسکاٹش نیشنل پارٹی، ریفارمز اور دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سمیت 4500 سے زائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ رہا۔

کل 650 نشستوں میں سے 533 انگلینڈ، 59 اسکاٹ لینڈ، 40 ویلز اور 18 نشستیں شمالی آئرلینڈ کی ہیں۔

ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایگزٹ پول جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق لیبر پارٹی کو برتری حاصل ہے۔

ایگزٹ پول میں لیبر پارٹی آگے
ایگزٹ پول کے مطابق لیبر پارٹی کو 410 اور کنزرویٹوپارٹی کو 131 نشستوں پر کامیابی کی توقع ہے جبکہ لب ڈیم کو 61 ، ریفارمز کو 13، ایس این پی کو 10،گرین پارٹی کو 2 اور دیگر کو 23 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔

ایگزٹ پول نے ممکنہ نتائج کی پیشگوئی کردی ہے جس کے بعد کنزرویٹیوز کا 14 سالہ دور ختم ہوگیا ہے۔

انتخابات میں برٹش پاکستانی امیدوار بھی میدان میں موجود ہیں، گزشتہ انتخابات میں 15 برٹش پاکستانی الیکشن میں کامیاب ہو کر پارلیمنٹ کا حصہ بنے تھے۔

اس بار پاکستانی نژاد چار امیدواروں نے برطانوی پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کیں، جو برطانیہ کی سیاست میں نسلی اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی نمائندگی کو اجاگر کرتی ہیں۔

گلاسگو سے *ڈاکٹر زبیر احمد* لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ اس کی جیت گلاسگو میں لیبر کے لیے ایک مضبوط گڑھ کی نشاندہی کرتی ہے، احمد کی مہم کمیونٹی کی ترقی اور سماجی انصاف پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ووٹرز کے ساتھ اچھی طرح گونج رہی ہے۔

لیبر پارٹی کی ایک اور امیدوار *نوشابہ خان* نے بھی کنزرویٹو پارٹی سے ایک سیٹ حاصل کرتے ہوئے اسے حاصل کیا۔ خان کی کامیابی کو پارٹی کے حق میں بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر زور دیتے ہوئے، لیبر کے لیے ایک اہم فائدہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی مہم صحت کی دیکھ بھال میں بہتری اور معاشی اصلاحات پر مرکوز تھی، جس نے اس کے حلقے سے کافی حمایت حاصل کی۔

کنزرویٹیو پا رٹی کی جانب سے مقابلہ کرنے والے *ثاقب بھٹی* بھی کامیاب قرار پائے۔ بھٹی کا دوبارہ انتخاب اپنے حلقوں کے ساتھ ان کے مضبوط تعلق اور مقامی کاروبار اور اقتصادی ترقی کے لیے ان کی موثر وکالت کی عکاسی کرتا ہے۔

پاکستانی نژاد *ڈاکٹر روزینہ آلین خان* نے ایک بار پھر لندن کے ٹوٹنگ سے جیت کر اپنی نشست برقرار رکھی اور علاقے میں ایک اہم سیاسی شخصیت کے طور پر اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط کیا۔ خان کی صحت کی دیکھ بھال پر مسلسل توجہ اور NHS ڈاکٹر کے طور پر ان کے کام نے انہیں ووٹرز سے مسلسل اعتماد اور حمایت حاصل کی ہے۔

دریں اثنا، کیر سٹارمر برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے اور ان کی سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی کو پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کی امید ہے، جس سے رشی سنک کی پارٹی کو شکست دے کر 14 سال کی اکثر ہنگامہ خیز کنزرویٹو حکومت کا خاتمہ ہو گا۔

جمعرات کو ہونیوالی ووٹنگ کے بہت سے نتائج کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے، سینٹر لیفٹ لیبر نے پہلے ہی پارلیمنٹ کی 650 نشستوں میں سے 381 سے زیادہ سیٹیں جیت لی ہیں، ایک ایگزٹ پول کے مطابق وہ تقریباً 410 پر قبضہ کر لے گی۔

واضح رہے کہ برطانیہ میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کیلئے شناخت ظاہر کرنا لازمی قرار دیا گیا، مسائل کا شکار برطانوی عوام کو توقع ہے کہ آنے والی حکومت ان کے مسائل کا جلد اور دیرپا حل ڈھونڈ لے گی۔

انتخابات کے بعد حکومت بنانے کیلئے کسی بھی سیاسی جماعت یا جماعتوں کے اتحاد کو کم از کم 326 نشستیں درکار ہوں گی۔
الیکشن کے بعد 9 جولائی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں نو منتخب اراکین حلف اٹھائیں گے اور اسپیکر کا انتخاب ہوگا۔

برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کےحکومت کی مدت قانونی طور پر جنوری 2025 تک تھی مگر 22 مئی کو برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا۔

ٹوری پارٹی 14 سال سے مسلسل برطانیہ پر حکمرانی کررہی ہے جب کہ لیبر پارٹی 14 سال بعد برسر اقتدار آنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔

ٹوری پارٹی کی مقبولیت ایک سال سے تنزلی کا شکار تھی جس کی بنیادی وجوہات این ایچ ایس میں انتظار کا طویل دورانیہ، بے روزگاری، غزہ پر برطانیہ کی پالیسی اور مہاجرین کو روکنے کے اقدامات کے علاوہ قانونی طور پر برطانیہ میں تعلیم یا ملازمت اختیار کرنے والوں کے لیے مستقل رہائش پر امیگریشن پالیسیاں سخت کرنا ہیں۔

برطانیہ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ٹوری اور لیبر کے بعد ریفارم یو کے جو دائیں بازو کی امیگریشن مخالف جماعت ہے، تیسرے نمبر پر ہے، اس جماعت کو ملک بھر میں یکساں مقبولیت حاصل ہے، لبرل ڈیموکریٹس پہلے تیسرے نمبر پر تھی جس کو 10 فیصد مقبولیت حاصل ہے۔

رشی سونک نے کشتیوں کے ذریعے برطانیہ آنے والے غیر قانونی مہاجرین کو روکنے کے لیے روانڈا بل منظور کرایا اور اسے اپنی کامیابی تصور کیا مگر اس بل کی سخت مخالفت کی گئی اور مخالفت کرنے والوں میں لیبر پارٹی سر فہرست ہے، اس کا مؤقف ہے کہ وہ اس بل کو برسر اقتدار آکر ختم کر دے گی، رشی سونک جو ہندوستانی نژاد ہندو فیملی سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کی عمر 44 برس ہے۔

لیبر پارٹی کے سربراہ کیر اسٹارمر کی عمر 61 سال ہے، وہ کراؤن پراسیکیوشن سروس کے سربراہ اور پبلک پراسیکیوشن کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کی توجہ حاصل کر لی۔

برطانیہ کے نئے وزیر اعظم لیبر پارٹی کے سربراہ سر کئیر اسٹارمر نے ایک مزدور گھرانے میں پرورش پائی، ان کے والد ایک ٹول میکر تھے جبکہ والدہ نرس تھیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق لیبر پارٹی کے سربراہ سر کئیر اسٹارمر خاندان میں پہلے شخص تھے جو یونیورسٹی گئے، لیڈز اور آکسفورڈ میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1987 میں بیرسٹر بنے۔
انہوں نے کیریئر کا بڑا حصہ انسانی حقوق کے مقدموں پرکام کرتے ہوئے گزارا، انہوں نے کئی ملکوں میں سزائے موت کے قانون کے خاتمے کیلئے بھی کام کیا۔
سر کئیر اسٹارمر 2008 میں پبلک پراسیکیوشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، 2015 میں پہلی بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے، 2020میں جیریمی کوربن کی جگہ لیبرپارٹی کی قیادت سنبھالی۔
اُنہوں نے اپنی جماعت میں تبدیلیاں کرتے ہوئے چارسال میں اسے محنت کشوں کی خدمت کرنے والی جماعت بنادیا، اسٹارمر بریگزٹ کے مخالف تھے۔
کورونا کے دوران مقامی فوڈ بینک میں رضاکارانہ طورپر بھی کام کیا تھا، فٹ بال ان کا پسندیدہ کھیل ہے اور وہ گٹار بجانے کا شوق رکھتے ہیں۔
سربراہ لیبرپارٹی کیئر اسٹارمر کا برطانیہ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر کہنا تھا کہ آج عوام نے ووٹ دیکر صفحہ بدل دیا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق سربراہ لیبرپارٹی کیئر اسٹارمر نے کہا کہ اتنے بڑے مینڈیٹ کیساتھ بڑی ذمہ داری بھی عوام نے دی ہے، ووٹرز نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا۔
اُنہو ں نے کہا کہ ہمیں ووٹ اس لئے ملا کے جماعت میں تبدیلی لائیں، تبدیلی لانے کیلئے فوری اقدامات کرینگے۔

کیئر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ لیبرپارٹی بدل چکی ہے یہ طرز عمل ہماری حکومت میں بھی نظر آئیگا، عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔

دوسری جانب برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے شکست تسلیم کرلی
واضح رہے کہ برطانیہ میں عام انتخابات کے دوران کنزرویٹو پارٹی کو تاریخی شکست، لیبر پارٹی نے تاریخی فتح حاصل کرلی۔

برطانوی قبل از وقت انتخابات میں 100 سے زائد ارکان پارلیمنٹ نے حصہ لینے سے معذرت کر لی۔

لیبر پارٹی برطانیہ میں 5 لاکھ سے زائد غیر قانونی مہاجرین کے لیے ایمنسٹی اور برطانیہ میں افرادی قوت میں کمی کو پورا کرنے کے علاوہ برگزٹ کے بعد پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کے لیے پر عزم نظر آتی ہے، این ایچ ایس میں ڈاکٹر نرسز اور برطانیہ میں ہنر مند افراد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ امیگریشن پالیسی کو نرم کرسکتی ہے۔

ٹوری پارٹی نے شادی کر کے اپنے ہم سفر کو برطانیہ میں لانے کے راستے روکے اور سالانہ آمدن کی شرح میں بے حد اضافے کی پالیسی اپنائی جسے پورا کرنا کسی کے بس میں نہ تھا یہ بھی عوام میں غصہ کا سبب بن گئی۔

لیبر پارٹی کی کامیابی کے لیے لندن کے میئر صادق خان نے برطانیہ کے مختلف شہروں کا طوفانی دورہ کیا اور عوام پر کسی حد تک عرصہ اثر انداز ہونے میں کامیاب بھی رہے۔

برطانیہ کے عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کو بدترین شکست کے بعد رشی سونک نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ساتھ ہی پارٹی کے عہدے سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں