انڈی ان کیمپس: صحافت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے ہو سکتا ہے؟

انڈی ان کیمپس: صحافت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے ہو سکتا ہے؟

انڈی ان کیمپس میں انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے ایڈیٹر ان چیف کی قیادت میں اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی کا دورہ کیا جہاں رپورٹر مونا خان اور بکر عطیانی نے اپنے تجربات کی روشنی میں طلبا و طالبات کو بتایا کہ ’پرانی طرزصحافت کے ساتھ اب مصنوعی ذہانت کو بھی صحافت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔‘

انڈی ان کیمپس کا مقصد یونیورسٹیز کے طلبہ کو میڈیا کے بدلتے رجحانات سے متعلق آگاہی فراہم کر کے دوران تعلیم ہی انہیں صحافتی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہے۔

 بکر عطیانی نے خبر کی تصدیق سے لے کر خبر چھپنے تک کے مراحل کے حوالے سے طلبہ کو بتایا۔ 

انہوں نے کہا کہ ’میڈیا کو آج کل جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں سب سے اہم اصل خبر تک پہنچنا اور پھر اس کی تصدیق ہے۔ 

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے خبر کا مکمل سائیکل بتایا کہ خبر حاصل ہونے کے بعد پبلش ہونے تک کن مراحل سے گزرتی ہے اور بطور صحافی کن باتوں کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ 

بکر عطیانی نے کہا کہ ’اگر ہنگامی حالات میں رپورٹنگ کرنا ہے تو اپنی خفاظت کے اقدامات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔‘

نامہ نگار مونا خان نے سیشن میں بتایا کہ ’صحافت اب بدل چکی ہے۔ 10 سال پہلے کی صحافت میں کام کرنا پڑتا تھا جبکہ اب مصنوعی ذہانت نے صحافت کو قدرے آسان بنا دیا ہے۔ 

’لیکن اے آئی پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی ذہانت کو بروئے کار پھر بھی لانا ہو گا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم کا حصہ ڈاکٹر پلوشہ نے طلبا و طالبات کو ادارے میں انٹرن شپ کے مواقع کے حوالے سے بتایا۔

انڈی ان کیمپس کے پروگرام میں شریک طلبہ میں بہت کم ایسے تھے جو رپورٹنگ میں دلچسبی رکھتے تھے۔ ان کی بڑی تعداد میڈیا کو بطور مضمون اس لیے پڑھ رہے ہیں تاکہ وہ اپنا ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم بنا سکیں۔ 

 انڈی ان کیمپس پروگرام کے تحت انڈپینڈنٹ اردو اب تک بیسیوں جامعات کا دورہ کر چکا ہے جہاں سے مختلف طلبا و طالبات کو انٹرن شپ کے مواقع بھی دیے گئے تاکہ وہ ڈیجیٹل جرنل ازم اور اس کا طریقہ کار سیکھ سکیں۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں