اسلاموفوبیا محض مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی بحران ہے: مسلم ورلڈ لیگ

اسلاموفوبیا محض مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی بحران ہے: مسلم ورلڈ لیگ

مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل اور ایسوسی ایشن آف مسلم سکالرز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا ہے کہ اسلاموبیا نہ صرف مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انتہا پسندی اور معاشرتی تقسیم کو بھی ہوا دیتا ہے۔

ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے مستند اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’مسلمانوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے، جن میں امتیازی سلوک، سماجی بائیکاٹ اور بنیادی حقوق کی محرومی شامل ہیں۔‘

انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ’بعض مسلم برادریوں کو سماج میں ضم ہونے سے روکا جا رہا ہے، جس سے ان کا کردار محدود ہو رہا ہے۔‘

سعودی گزیٹ کے مطابق ڈاکٹر العیسیٰ نے کہا کہ ’دنیا بھر میں موجود تقریباً دو ارب مسلمان اسلام کی حقیقی روح کے علمبردار ہیں۔‘

مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ’اسلاموفوبیا محض کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی بحران ہے، جو عالمی امن اور بقائے باہمی کے لیے خطرہ ہے۔‘

’جب ہم اس بین الاقوامی پلیٹ فارم سے بات کرتے ہیں تو ہم صرف اسلام کا دفاع نہیں کر رہے بلکہ ہم عالمی انسانی اقدار کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر العیسیٰ نے نفرت انگیز اور تفرقہ انگیز بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی سیاسی مہمات، میڈیا کے جانبدارانہ رویے اور پالیسیوں کو رد کرتے ہیں جو خوف اور تقسیم کو فروغ دیتی ہیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ان انتہا پسندوں کی بھی مذمت کی ’جو اپنے مقاصد کے لیے مذہب کو بگاڑتے ہیں‘ اور دنیا پر زور دیا کہ وہ اسلام اور اس کی امن و محبت کی تعلیمات کی حقیقت کو تسلیم کرے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کو اقوام متحدہ میں اس اہم اقدام کی قیادت کرنے پر بے حد فخر ہے اور وہ کچھ رکن ممالک کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کو غیر قانونی قرار دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعصب کو دور کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے۔‘

وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں شہباز شریف نے اس دن کے حوالے سے کہا ہے کہ ’یہ دن بھرپور انداز سے متحرک عملدرآمد کی پکار کے طور پر کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی ٹھوس قانون سازی اور پالیسی اقدامات کے ذریعے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کی اجتماعی خواہش کی عکاسی بھی کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’تاہم، اسلاموفوبیا کی خطرناک لہر کو ختم کرنے، بنیادی انسانی حقوق و مذہبی آزادیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔‘



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں