چین کے سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے طاقتور جاسوس کیمرا تیار کر لیا ہے جو نچلے زمینی مدار (Low-Earth Orbit) سے انسانی چہروں کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی چینی اکیڈمی آف سائنسز کے ایرو سپیس انفارمیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محققین نے تیار کی ہے جو 100 کلومیٹر کے فاصلے سے بھی ملی میٹر کے سائز کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات کو واضح طور پر دیکھ اور شناخت کر سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ جدید ترین نظام عالمی نگرانی کے نئے معیارات متعین کر سکتا ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق یہ آپٹیکل امیجنگ ٹیکنالوجی چین کو غیر ملکی فوجی سیٹلائٹس اور زمینی دفاعی تنصیبات کو انتہائی غیرمعمولی تفصیل کے ساتھ دیکھنے کی صلاحیت فراہم کر سکتی ہے۔
یہ لیزر امیجنگ سسٹم عام لینس استعمال کرنے والے جاسوسی کیمروں کے مقابلے میں سو گنا زیادہ تفصیلات حاصل کر سکتا ہے۔
2011 میں امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے ایک تجربے میں 1.6 کلومیٹر کے فاصلے سے دو سینٹی میٹر ریزولوشن حاصل کی گئی تھی۔ تاہم چین کے اس نئے کیمرے نے شمال مغربی چین کے چنگھائی جھیل پر 101.8 کلومیٹر کے فاصلے تک تجربہ کیا جس میں دوسرے کنارے پر موجود صرف 1.7 ملی میٹر کے سائز کی اشیا کی تفصیلات بھی واضح ہو گئیں۔
عام طور پر نچلے زمینی مدار میں سیٹلائٹس کم از کم 170 کلومیٹر کی بلندی پر کام کرتی ہیں جبکہ زیادہ تر سیٹلائٹس کو 800 کلومیٹر کی بلندی پر بیرونی مدار میں بھیجا جاتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمی حالات اس ٹیکنالوجی کی کارکردگی پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ چنگھائی جھیل پر کیا گیا تجربہ انتہائی موزوں موسمی حالات میں کیا گیا تھا اور ہلکے بادل یا خراب موسم میں کیمرے کی درستگی متاثر ہو سکتی ہے۔
اس جدید جاسوسی کیمرے کو ‘Synthetic aperture lidar achieves millimeter-level azimuth resolution imaging at a distance of 100 kilometres for the first time’ نامی تحقیق میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جو چائنیز جرنل آف لیزرز میں شائع ہوئی ہے۔
دوسری جانب ایک امریکی سیٹلائٹ امیجنگ سٹارٹ اپ البیڈو سپیس (Albedo Space) بھی ایسی ہی ایک ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے جو زمین پر موجود افراد کو بہت قریب سے دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ چہرے کی شناخت نہیں کر سکے گی۔
البیڈو سپیس نے پہلے ہی امریکی حکومت کے ساتھ متعدد دفاعی معاہدے کر لیے ہیں جس پر پرائیویسی کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
2019 میں غیر سرکاری تنظیم ’الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن‘ نے جاسوس سیٹلائٹس پر ضابطے لگانے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ یہ عوام کی شہری آزادیوں کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔
تنظیم نے خبردار کیا تھا: ’ریئل ٹائم ویڈیو کی آمد کے ساتھ نجی سیٹلائٹس پوری دنیا کو 24/7 مسلسل نگرانی کے دائرے میں لا سکتے ہیں۔‘