’میں ملتان جا رہا تھا تو گاڑیاں بند تھیں، میں نے سوچا چلو ٹرین سے چلتے ہیں۔ پنیر سٹیشن سے آگے چوکی کے پاس انہوں (شدت پسندوں) نے حملہ کیا تو ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ پھر انہوں نے فائرنگ شروع کر دی اور مسافروں کو نیچے اترنے کا کہا۔‘
یہ کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد یرغمال بنائے جانے والے مسافروں میں سے ایک محمد نوید کا جو بقول ان کے شدت پسندوں سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق منگل کو جعفر ایکسپریس پر حملے کرنے والے ’تمام حملہ آور بدھ کی شام تک مارے گئے ہیں جبکہ تمام یرغمالیوں کو بھی بحفاظت بازیاب کر لیا گیا ہے۔
بہاولپور کے رہائیشی محمد نوید کہتے ہیں کہ وہ کوئٹہ میں ایک شادی ہال میں کام کرتے ہیں۔
حملہ آوروں سے فرار ہونے کے بعد جب وہ کوئٹہ پہنچے تو وہاں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ٹرین پر حملے سے اپنے فرار ہونے تک کی تمام روداد سنائی۔
وہ بتاتے ہیں کہ منگل کو انہوں نے ٹرین پر جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ ان کے مطابق گاڑیاں نہیں مل رہی تھیں۔
’پنیر سٹیشن سے آگے چوکی کے پاس انہوں (شدت پسندوں) نے حملہ کیا تو ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ پھر انہوں نے فائرنگ شروع کر دی اور مسافروں کو نیچے اترنے کا کہا۔‘
’انہوں نے پوچھا تم افسر تو نہیں‘
محمد نوید کہتے ہیں کہ ’پہلے ہم (دروازے) بند کر کے ٹرین میں ہی چھپ گئے تھے لیکن انہوں نے نیچے اتار کر بولا کہ سب سائیڈ پر بیٹھ جاؤ، پھر انہوں نے پنجابی، سرائیکی، سندھی اور پشتونوں کو علیحدہ کر دیا۔
’ہم نے اپنا سامان، ٹکٹیں اور شناختی کارڈ سب پھینک دیے تھے کہ ان کو پتہ نہ چل جائے کہ کہاں جا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے بولا کہ ہم کوئٹہ سے ہیں لیکن انہوں نے کہا یہیں بیٹھے رہو۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’یہ واقعہ 12 بجے پیش آیا جب ہمیں ٹرین سے اتار لیا گیا تھا، جو ٹرین سے نہیں اترے ان پر وہ کبھی گرنیڈ پھینکتے، کبھی لانچر اور کبھی فائرنگ کرتے۔
’ہم وہاں بیٹھے تھے تو انہوں نے پوچھا تم افسر تو نہیں، ہم نے کہا ہم مزدور ہیں، تو وہ بولے کہ ہمیں پتہ ہے کہ تم ادھر کیا مزدوری کرتے ہو۔‘
محمد نوید کہ مطابق ’وہ (حملہ آور) نہیں مانے اور کہا کہ تم افسر ہو، ایف سی کے اہلکار ہو، فلاں ہو۔
’پھر ان کو چار پانچ افسر مل گئے جن کی شناخت ہو گئی تو ان کے ہاتھ پیچھے باندھ کر بیٹھا دیا اور شام پانچ بجے کے قریب ان کو گولیاں مارنا شروع کر دیں۔‘
محمد نوید منگل کو ٹرین پر حملے کے بعد وہاں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں مزید بتاتے ہیں کہ ’ان میں سے ایک ان کے سامنے ہاتھ جوڑتا رہا کہ میری پانچ لڑکیاں ہیں، میں گھر کا واحد کمانے والا ہوں۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت تو اس کو چھوڑ دیا لیکن رات ایک بجے کے قریب اسے اور 10، 12 پنجابی لوگوں کے سروں میں گولیاں مار کر انہیں شہید کر دیا۔‘
محمد نوید کے مطابق ’پھر سرائیکی جو دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک دو کو مار دیا۔ پھر پنجابی۔ میں پشتونوں والے دائرے میں جا کر بیٹھ گیا، وہ رات کو وہاں بھی آئے۔‘
’افطار کے وقت پانی، کھجور کسی کو ملے کسی کو نہیں‘
حملہ آوروں کی تعداد کے حوالے سے محمد نوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انہوں نے ٹرین روکی تو وہ بہت زیادہ تھے لیکن بعد میں جب سب کو علیحدہ کر دیا تو وہ چھ سات رہ گئے تھے، پانچ نیچے تھے اور دو پہاڑ پر سنائپر بیٹھے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جو (ٹرین سے) نہیں نکلتے تھے ان پر گرنیڈ پھینکتے اور گولیاں چلانا شروع کر دیتے تھے۔ ہم ساری رات ادھر ہی بیٹھے رہے۔
’اس سے پہلے جب افطاری کا وقت ہوا تو ہم نے پانی مانگا تو پہلے بولتے تھے کہ پانی نہیں ہے لیکن بعد میں اندر سے پانی ڈھونڈ کر دو دو گھونٹ پانی اور کھجور دی وہ بھی کسی کو ملی، کسی کو نہیں۔ پھر رات ایسے ہی گزری، جب صبح کے پانچ بجے تو وہ جدھر ٹرین روکی تھی، ادھر گیا تو ہم بھاگ کر ایف سی چوکی پر پہنچ گئے۔
’رات کو ایف سی کا ڈرون آتا تھا جو ہمیں دیکھتا رہتا تھا لیکن وہ (حملہ آور) نظر نہیں آتے تھے کیوں کہ وہ اندر چلے جاتے تھے۔‘
حملہ آوروں سے کیسے فرار ہوئے؟
اس بارے میں محمد نوید کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ ڈر کی وجہ سے نہیں بھاگے تھے کیوں کہ انہوں (حملہ آوروں) نے کہا تھا بھاگنے والوں پر اس کی ذمہ داری ہوگئی۔‘
’ہم پانچ بجے صبح ہوئی ہے تو بھاگ گئے تھے۔ جب ہم بھاگے تو انہوں نے گولیاں چلائیں جو کچھ لوگوں کو لگیں۔ وہاں ہمارے سامنے 35، 40 لوگوں شہید ہو گئے تھے۔‘
’لیکن جب ہم بھاگ کر ایف سی والوں کے پاس گئے تو انہوں نے ہماری حفاظت کی، ہمیں پانی وغیرہ دیا۔ فرار کے وقت ہم اتنا بھاگے کہ ہمارے پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔‘