ایک اور دن، ایک اور اوورسیز پاکستانی کے فراڈ کی داستان زبان زدِ عام۔ اس بار کہانی ہے ناروے سے جہاں اوسلو میں سنار کی دکان کے مالک سلیم احمد اور ان کی بیگم کی ٹیکس چوری کا معاملہ سامنے آیا۔
تفصیلات کے مطابق دونوں میاں بیوی عرصے سے کئی ملین نارویجن کرونرز کی ٹیکس چوری میں ملوث رہے۔ معاملہ عدالت گیا تو سارے پیسے پاکستان منتقل کیے، سنار کی دکان بند کی اور حکام کو بتا دیا کہ ٹیکس کہاں سے دیں ہمارے پلے تو کچھ بھی نہیں۔
خیر سے انہیں سزا سنا دی گئی ہے لیکن پاکستانی قوم کی بدنامی یہیں تک رکنے والی کہاں ہے۔ اب اس پاکستانی جوڑے کی مزید کہانیاں بھی اخبارات کی زینت بن رہی ہیں، جن کے مطابق دونوں میاں بیوی جس دوران نارویجن ٹیکس اتھارٹیز کو خالی جیبیں جھاڑ کر دکھا رہے تھے، انہی دنوں پاکستان میں پراپرٹیز خریدی جا رہی تھیں، ثبوت کے طور پر اخبار نے سیالکوٹ کے مقامی اخبار میں پراپرٹی کی خریداری کا اطلاع نامہ بھی لگا رکھا ہے۔
ایک اخبار نے لکھا کہ جب عدالت نے ٹیکس نہ دینے کا پوچھا تو خاتون نے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس تو دینے کو کچھ بھی نہیں، لیکن جب وہ آنسو بہا رہی تھیں، اس وقت بھی اس پاکستانی نژاد خاتون کے نام پر دبئی میں فلیٹ تھا، جس کی چھت پر پرائیوٹ ہیلی پیڈ موجود ہے۔
خبروں کے مطابق جب انہوں نے نارویجن سسٹم میں یہ معلومات جمع کروائیں کہ ان کا کاروبار قلاش ہو گیا، انہی دنوں انتہائی پُرتعیش پراپرٹیز میں سرمایہ کاری کی جا رہی تھی، جن پر بطور نارویجن شہری ٹیکس دینا تھا لیکن انہوں نے نہیں دیا۔ یہ سب جھوٹ ہو یا پورے کا پورا سچ، پاکستان کا نام بہرحال آگیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاش کہ یہ پہلا کیس ہوتا، ابھی کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ناروے کی پاکستانی کمیونٹی میں ایک چرچا ہوا کرتا تھا کہ کچھ بعید نہیں، ناروے کی لیبر پارٹی سے منسلک پاکستانی نژاد نارویجن سیاست دان ہادیہ تاجک ایک دن ناروے کی وزیراعظم بن جائیں، لیکن پھر اچانک ٹیکس چوری کا ایک سکینڈل سامنے آیا جس میں الزام لگا کہ ہادیہ تاجک نے ماضی میں سرکاری خرچ پر رہائش اور رہائش پر ٹیکس کی مد میں حکومت سے وہ سہولیات حاصل کیں جن کی وہ حقدار نہ تھیں۔
صرف ایک بظاہر معمولی سی لرزش سے ہادیہ تاجک کا پورا سیاسی کیریئر داؤ پر لگ گیا، اب وہی ہادیہ تاجک نارویجن سیاست سے آہستہ آہستہ غائب ہو رہی ہیں بلکہ حال ہی میں ایک قانونی فرم میں بطور وکیل ملازمت شروع کر دی ہے۔
ٹیکس بچانے کی یہ جبلت ہمارے ڈی این اے میں ہے یا نجانے کیا مسئلہ ہے۔ اپنے ملک میں تو ٹیکس نیٹ سے بچنے کے لیے سرمایہ کار اور مالدار افراد ہر حد تک چلے جایا کرتے ہیں اور ٹیکس کے شکنجے میں صرف ملازمت پیشہ، مزدور اور عام صارف ہی آتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس یوں بھی کَھلتا ہے کیونکہ جب اشرافیہ بھاری بھر کم رقوم کا حساب کتاب نہیں دیتی اور جب جمع کرائے گئے ٹیکس کے عوض شہریوں کو سہولیات نہیں ملتیں تو ٹیکس دینے کی تحریک بھی نہیں ہوتی، لیکن وہ ممالک جہاں ریاست زندگی کی ہر سہولت بلا امتیاز ہر شہری کو بہم پہنچا رہی ہے، وہاں ٹیکس چوری کے نت نئے راستے ڈھونڈنا سراسر مجرمانہ فعل ہے۔
بعض کیسز میں ٹیکس چوری معلومات کی کمی کے باعث کی جاتی ہے۔ مثلاً پاکستان سے کپڑوں کا بزنس کرنے والی خواتین کی اکثریت اسے مشغلے کے طور پر شروع کرتی ہیں، جس میں رجسٹرڈ بزنس کا کوئی پلان نہیں ہوتا لیکن اگر بزنس چل پڑے تو منہ کو لگا خون مجبور کرتا ہے اور یہ چھوٹے بزنس تب بھی رجسٹر نہیں ہوتے۔
ابھی گذشتہ برس سویڈن میں ایک پاکستانی خاتون کے گھر سے بنائے کیک کا بزنس محض اس وجہ سے بند کروا دیا گیا کیونکہ ان کی آمدن روز بروز بڑھ رہی تھی، آن لائن آرڈرز کا سلسلہ خوب چل رہا تھا مگر بزنس رجسٹرڈ نہیں تھا تو ٹیکس اتھارٹیز نے بو سونگھ لی، چھاپہ مارا اور نتیجہ یہ کہ جتنی آمدنی نہیں ہوئی تھی، اس سے ڈبل جرمانہ پڑ گیا، پاکستانی کمیونٹی کی بدنامی الگ ہوئی۔
ڈنکی لگا کر یورپ آنے سے لے کر یہاں کالے میں کام کرکے پیسے کمانے تک اور جیسے تیسے وقت گزارنے سے لے کر یہاں کے پاسپورٹ حاصل کرنے تک نجانے کون کون سے آڑھے تیڑھے راستے ہیں، جن پر چل کر اوورسیز پاکستانیوں نے دیس اور پردیس دونوں میں خود کو منوایا ہے۔
ہر وہ دو نمبری اور جگاڑ جس سے چار پیسے بنائے یا بچائے جاسکتے ہیں، وہ ہمارے لوگوں کو پتہ ہیں۔ یقیناً اور قوموں میں بھی ایسی کالی بھیڑیں ہوں گی لیکن ہمارا معاملہ ہمارے اپنے لوگ ہیں اور اپنے لوگوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ کرتا ایک ہے اور بھگتنا سب کو پڑتا ہے۔
اس کالم پر سر دھننے سے قبل یہ وضاحت ضرور پڑھ لیں کہ اپنے کالموں میں کئی بار ایسے پاکستانیوں کے بارے میں تفصیل سے لکھ چکی ہوں، جو ہم سب کا فخر ہیں، لیکن دنیا کے چیدہ چیدہ ممالک میں ہماری فخریہ پیشکش میں ایسے ہم وطن بھی آجاتے ہیں جو پرائے دیس میں چاند چڑھاتے ہیں، جس پر پوری کمیونٹی سر جھکا کر رہ جاتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔