پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے سات ارکان پر مشتمل وفد نے جمعے کو چیف جسٹس آف پاکستان یحٰیی آفریدی سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ ان کی جماعت کو ’فسطائیت‘ کا سامنا ہے اور ان کے مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو رہے۔
جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ یہ ملاقات چیف جسٹس کے کہنے پر ہوئی۔
اس سے قبل 19 فروری کو وزیراعظم شہباز شریف نے وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان کے ہمراہ چیف جسٹس سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’چیف جسٹس نے قومی عدالتی پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے ساتھ ایک ایجنڈا شیئر کیا تھا اور 10 نکات پر تجاویز مانگی تھیں۔ وفد نے انہیں یہ باور کرایا کہ انہیں اپنی طرف سے تجاویز دیں گے لیکن اس وقت موجود ڈھانچے میں رہتے ہوئے آپ کے سامنے وہ تجاویز بھی رکھنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے آپ کے سامنے یہ معاملہ لے کر آئے کہ پی ٹی آئی کے کارکن اور حامی خاص طور پر عمران خان اور بشریٰ بی بی عدالتی طور پر غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک سے متاثر ہو رہے ہیں۔‘
’پی ٹی آئی کے مقدمات سماعت کے لیے نہیں لگ رہے۔ پاکستان تحریک انصاف گذشتہ دو ڈھائی سال سے فسطائیت کا سامنا کر رہی ہے۔‘
بیرسٹر گوہر خان کے مطابق چیف جسٹس کو ’عمران خان کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کبھی تنہائی میں رکھا جاتا ہے، ڈاکٹر کی سہولت نہیں دی جاتی، کتابیں نہیں دی جاتیں، ایکسرسائز کے لیے مشین دستیاب نہیں اور یہاں تک کہ ان کی بچوں کے ساتھ بات نہیں کرائی جاتی۔ اہلیہ کی ملاقات نہیں کرائی جاتی۔ یہ فسطائیت زیادہ تر پنجاب میں بڑے عرصے سے جاری ہے۔‘
قبل ازیں اپوزیشن لیڈر عمرایوب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’پی ٹی آئی وفد نے چیف جسٹس کو بتایا کہ مقدمات کی سماعت کی تاریخیں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔‘ چیف جسٹس کو قیدی رہنماؤں کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو بتایا ہے کہ بانی اوراہلیہ کی سماعت کی تاریخیں نہیں بتائی جاتی۔ قوانین اورجیل مینوئل کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ ہونے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے متعدد رہنماؤں کوجھوٹے کیسزمیں پھنسایا گیا۔ چیف جسٹس سے ملاقات میں اپنا مؤقف رکھا۔ بے روزگاری اورمہنگائی بڑھ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنان پرمقدمات اور پروڈکشن آرڈر کا معاملہ بھی رکھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس کو بتایا ہم 26 ویں آئینی ترمیم کوتسلیم نہیں کرتے۔ سلمان اکرم راجہ نےلاپتہ افراد کا معاملہ بھی رکھا، پنجاب میں سٹیٹ دہشت گردی سےمتعلق بھی بتایا۔‘
عمرایوب نے کہا کہ ہم بانی پی ٹی آئی کی اجازت کے بعد ملاقات کے لیے آئے، ملاقات سے پہلے تین بار بانی پی ٹی آئی سے اجازت لی، چیف جسٹس کو معیشت کے حوالےسے بھی آگاہ کیا، ’بانی نے کہا ملٹری کورٹس کے حوالے سے بھی بات کرنا۔‘
تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’ملک میں آئین اورقانون پرعملدرآمد نہیں ہو رہا۔ واضح الفاظ میں کہا کہ ملک میں اس وقت قانون کی بالادستی نہیں۔ نظام عدل کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کو فوری مداخلت کرنی ہو گی، ہم نے کہا 26 ویں ترمیم ہوئی اس کا متن اور طریقہ کار غلط تھا، اگر نوٹس نہ لیا تو عوام احتجاج پر مجبور ہوں گے۔
چیف جسٹس سے وزیراعظم اور ان کی ٹیم ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں
وزیراعظم شہباز شریف نے 19 فروری کو چیف جسٹس سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے چیف جسٹس کے جنوبی پنجاب، اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں کا دورہ کرنے اور ملک میں انصاف کی مؤثر و بروقت فراہمی کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے اقدام کو سراہا۔
ملاقات میں وزیر اعظم نے ملکی معاشی صورتحال اور معاشی و سیکیورٹی چیلنجز پر بھی گفتگو کی اور ملک کی مختلف عدالتوں میں طویل مدت سے زیر التوا ٹیکس تنازعات کے حوالے سے آگاہ کیااور استدعا کی کہ ان کیسسز میں میرٹ پر جلد فیصلے کیے جائیں۔
بیان کے مطابق چیف جسٹس نے وزیراعظم سے نظام انصاف میں بہتری لانے کیلئے تجاویز بھی مانگیں۔
’وزیراعظم نے چیف جسٹس کو لاپتہ افراد کے حوالے سے مؤثر اقدامات میں تیزی لانے کی بھی یقین دہانی کروائی۔‘