دیامر بھاشا ڈیم مظاہرین کا دھرنا: ’2100 گھر حکومتی معاوضے سے محروم ہیں‘

دیامر بھاشا ڈیم مظاہرین کا دھرنا: ’2100 گھر حکومتی معاوضے سے محروم ہیں‘

پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم پر دیامر بھاشا ڈیم کے مظاہرین کا دھرنا پانچویں روز بھی جاری ہے اور مظاہرین کے مطابق اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو ڈیم پر جاری کام بند کروائیں گے۔

پانچ روز سے جاری احتجاج میں مظاہرین کی بڑی تعداد جمع ہے اور ان کے بنیادی مطالبات میں زمینوں کے معاوضے اور اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدے پورے کرنا ہے۔

مظاہرین کے دھرنے کو گلگت بلتستان کی سول سوسائٹی تنظیم عوامی ایکشن کمیٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

دھرنا شرکا نے شاہراہ قراقرم تو بند نہیں کی ہے لیکن ڈیم کے آس پاس مختلف چھوٹے راستے بند کیے ہیں اور حکومت کے سامنے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ رکھا ہے۔

چلاس میں دیامر بھاشا ڈیم دریائے سندھ پر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی حدود میں بنایا جا رہا ہے جو 2029 تک مکمل ہو جائے گا۔

محکمہ واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی ویب سائٹ کے مطابق 272 میٹر اونچائی کا یہ ڈیم سالانہ 18 ہزار 97 گیگا واٹس کی بجلی پیدا کرے گی۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ڈیم کے لیے گلگت بلتستان کی 16 ہزار 27 ایکٹر نجی زمین جبکہ 17 ہزار 894 سرکاری زمین لی گئی ہے اور 464 ایکڑ زمین خیبر پختونخوا سے لی گئی ہے۔

’47 لاکھ روپے ادا نہیں کیے گئے‘

محمد اقبال بھی مظاہرین میں شامل ہیں جن کا اپنا اور تین بھائیوں کا گھر ڈیم ریسزوائر یعنی پانی کی جگہ میں آئے گا لیکن ابھی تک ان میں سے کسی کو بھی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔

اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ڈیم کے لیے سروے اور زمینوں کی پیمائش 2007 میں ہوئی تھی اور 2010 میں وہاں کے رہائشیوں اور حکومت کے مابین معاہدہ طے پایا گیا تھا۔

معاہدے کے مطابق اقبال نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے مظاہرین کو کالونی بنا کر ایک کنال پلاٹ اور اگر کوئی پلاٹ نہیں لیتا تو ان کو 47 لاکھ روپے ادا کرنے تھے، جو ابھی تک نہیں دیے گئے۔

اقبال نے بتایا، ’ابھی 2100 چولہے (اس کا مطلب ایک گھرانہ جہاں ایک چولہا جلتا ہو) معاوضے سے محروم ہیں اور ڈیم کا پانی آنے سے ان کے گھر ڈوب جائیں گے۔‘

اقبال نے بتایا کہ مظاہرین کے ساتھ معاہدے میں یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر گھرانے کو چھ کنال زرعی زمین دینے تھی لیکن وہ زمین بھی ابھی نہیں دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا، ’حکومت سے بارہا یہ مطالبات کیے گئے ہیں لیکن ابھی تک حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی اور اسی وجہ سے آج ’حق دو ڈیم بناؤ‘ تحریک شروع کرنے پر مجبور ہو گئے۔‘

اقبال کے مطابق دھرنا منتظمین نے وزیر اعظم کی زیر نگرانی بااختیار کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کریں اور دھرنا تب ختم ہو گا جب مطالبات تسلیم کیے جائیں۔

مظاہرین دیامر بھاشا ڈیم کے مطالبات کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے گلگت بلتستان و کشمیر امور امیر مقام کی زیر صدارت 17 فروری کو اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان، چیئرمین واپڈا اور دیگر شریک ہوئے۔

اجلاس سے گفتگو میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان نے بتایا کہ واپڈا کی غیر سنجیدگی اور فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دیامر بھاشا ڈیم کے مظاہرین سڑکوں پر آ گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے مظاہرین کو معاوضے کے حوالے سے ٹی او ارز بنائے گئے ہیں لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

اجلاس سے گفتگو میں امیر مقام نے کہا کہ دھرنا شرکا کے مطالبے پر اعلیٰ سطح کی وفاقی کمیٹی تشکیل دے جائے گی اور گلگت بلتستان کا دورہ کریں گے۔

امیر مقام نے بتایا، ’کمیٹی مظاہرین کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق جائز مطالبات حل کرنے کے لیے جامع فیصلے کریں گے۔‘



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں