امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور غزہ سے متعلق حالیہ تجویز اس وقت خاصی زیرِ بحث ہے اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے منفرد تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو تجویز دی کہ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے باہر مستقل طور پر آباد کیا جائے جبکہ امریکہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے ’ملکیت‘ لے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ںے بھی اپنی پوسٹ میں امریکی صدر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’میک غزہ بیوٹی فل (خوبصورت) اگین‘ کے الفاظ لکھتے ہوئے کہا کہ ’غزہ کو حماس سے آزاد ہونا چاہیے۔ جیسا کہ آج امریکی صدر نے بتایا کہ امریکہ غزہ کی قیادت کرنے اور اسے دوبارہ خوبصورت بنانے کے لیے تیار ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ خطے میں تمام لوگوں کے لیے دیرپا امن قائم ہو۔‘
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ٹرمپ نے غزہ سے متعلق غیرمعمولی تجویز دی ہو، ان کا بار بار ذکر کرکے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ان تجاویز کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کچھ وقت سے مسلسل کسی ’آوٹ آف دی باکس‘ حل کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ملکیت کی تجویز پر مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔
تازہ تجاویز اسرائیل اور فلسطینیوں کے بارے میں امریکہ کے مؤقف میں سب سے زیادہ بنیادی تبدیلی کے مترادف ہیں البتہ انہیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جائے گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل (یو ایس اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پال اوبرائن نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ان کی قوم کو مٹانے کے مترادف قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’غزہ ان(فلسطینیوں) کا گھر ہے۔ غزہ کی تباہی اور اموات اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں ہزاروں عام شہریوں کے قتل کا نتیجہ ہیں، جو اکثر امریکی بموں سے کیے جاتے ہیں۔‘
آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے ٹرمپ کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا ’ آسٹریلیا کی پوزیشن وہی ہے جو آج صبح تھی، اور گذشتہ سال تھی۔ آسٹریلوی حکومت دو طرفہ بنیادوں پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔‘
امریکی کانگریس رکن راشدہ طالب نے ٹرمپ کے اس بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’ نسل کشی‘ قرار دیا اور لکھا کہ ’یہ صدر قتل عام کے جنگی مجرم کے ساتھ بیٹھ کر کھلے عام نسلی کشی کی بات کر رہا ہے، یہ امریکی محنت کشوں کے لیے وفاقی فنڈز روکنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا، جبکہ اسرائیلی حکومت کے لیے فنڈنگ بدستور جاری ہے۔‘
امریکی سینیٹر کرس مرفی نے اس بیان کو ’برا اور گھٹیا مذاق‘ قرار دیا، انہوں نے لکھا کہ ’وہ (ٹرمپ) اپنے حواس کھو چکا ہے۔ غزہ پر امریکی حملہ ہزاروں امریکی فوجیوں کے قتل عام اور مشرق وسطیٰ میں دہائیوں تک جنگ کا سبب بنے گا۔‘
ڈیموکریٹک امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے کہا کہ ’ٹرمپ کی 20 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلنے اور ضرورت پڑنے پر طاقت کے ذریعے ‘ملکیت’ لینے کی تجویز محض ایک اور نام سے نسل کشی کرنا ہے۔‘
فلسطین حامی مظاہرین نے بھی امریکی صدر کے غزہ پر ’ملکیت‘ کے بیان پر وائٹ کے ہاؤس کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ انہوں نے اس احتجاج میں فلسطینی پرچم، اسرائیلی وزیراعظم مخالف اور ‘فری فلسطین‘ کے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔