سفر کسے پسند نہیں؟ ہم سب اپنی پریشانیاں گھروں اور دفاتر میں چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چند دن یا ہفتے سکون کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ تاہم پاکستان سے بیرونِ ملک سفر کرنا آسان نہیں ہے۔
پاکستان اور پاکستانی دنیا بھر میں بدنام ہیں۔ دنیا کا قریباً ہر ملک ہم سے ویزا کی درخواست کے ساتھ ڈھیروں دستاویزات اور سفر کے لیے مناسب وسائل کے ثبوت مانگتا ہے جنہیں بنوانے میں ہماری جیب اچھی خاصی ہلکی ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف گوروں کو اکثر ممالک کے لیے ویزا لینے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی۔ وہ اپنے سفر سے کچھ ماہ قبل سستا ٹکٹ خریدتے ہیں، ایک بستے میں اپنی ضرورت کا سامان ڈالتے ہیں اور سفر پر نکل جاتے ہیں۔ سفر کے دوران پیسے کم پڑیں تو وہیں کوئی کام کر کے پیسے بھی کما لیتے ہیں۔
ہمیں اپنے سفر سے پہلے ہی سفر کے لیے درکار پیسوں کا ثبوت دکھانا پڑتا ہے۔ اکثر ممالک کے سفارت خانے ویزے کی درخواست کے ساتھ چھ ماہ کی بینک سٹیٹمنٹ مانگتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سفر کے لیے ہمارے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے ہونا چاہیے کہ ہمارا سفر بھی آرام سے ہو جائے اور پیچھے گھر کا نظام بھی چلتا رہے۔
دوسری طرف بہتر ممالک کے لوگ جیب میں پھوٹی کوڑی لیے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ ان کے پاس کتنی رقم ہے اور وہ اپنے سفر کے اخراجات کیسے اٹھائیں گے۔
ہم ویسے بھی ان سے متاثر ہیں۔ جب وہ ہمارے ملک آتے ہیں تو ہم انہیں مفت کھانا پینا فراہم کرتے ہیں۔ امریکی خاتون کو دیکھ لیں۔ وہ ہمارے قانون کا مذاق اُڑا رہی ہیں۔
امریکہ واپس جانے سے انکاری ہیں۔ ہم انہیں واپسی کا ٹکٹ خرید کر دے رہے ہیں۔ ان کی رہائش اور خوراک کا بندوبست کر رہے ہیں اور ان کی پریس کانفرنس کروا رہے ہیں۔ اگر یہی کام ہم میں سے کسی نے کسی دوسرے ملک میں کیا ہوتا تو اس وقت ہم اس ملک میں جیل کی ہوا کھا رہے ہوتے اور ہمارا سفارت خانہ بھی ہماری مدد کرنے سے انکاری ہوتا۔
ہمیں ویزا فیس کی مد میں بھی ہزاروں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ فیس ادا کرنے کے بعد بھی ویزا ملنے کی امید نہیں ہوتی۔ سفارت خانے بغیر وجہ بتائے ہماری ویزا کی درخواست مسترد کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں ہماری اس سفر پر لگنے والی ساری رقم ضائع ہو جاتی ہے۔
یہ وہ ضروری اخراجات ہیں جو ہمیں سفر کے لیے کرنا ہی پڑتے ہیں۔ ہمارے اخراجات کی اصل گیم اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سفر پر جانے سے پہلے ہم اپنے رشتے داروں، محلے داروں اور جاننے والوں کے لیے تحائف کی فہرست بناتے ہیں۔
اس میں کچھ اضافہ ہمارے پیاروں کی فرمائشیں بھی کرتی ہیں۔ ہمارے باہر جانے کا پتہ لگتے ہی ان کی آمدورفت شروع ہو جاتی ہے۔
مبارک بادوں اور دعائوں کے ساتھ فرمائیشی پرچیاں تھمائی جاتی ہیں۔ کسی کو شیمپو چاہیے ہوتا ہے تو کسی کو کریم۔ کسی نے اپنے بچوں کے لیے کھلونوں کی فرمائش کی ہوتی ہے تو کسی نے گھر کے لیے سجاوٹ کا سامان منگوایا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ہماری ایک محلے دار نے ہم سے چین سے اپنی بیٹی کے لیے جہیز کا سامان لانے کی درخواست کی تھی۔ ہم ہکا بکا ان کی شکل دیکھتے رہ گئے۔ انہیں بڑی مشکل سے سمجھایا کہ ہم ایک آدھی چیز تو لا سکتے ہیں لیکن اپنے سارے سامان میں ان کی چیزیں نہیں لا سکتے۔
ہمارے سفر پر ہمارا بھی حق ہے۔ ہم کہیں جا رہے ہیں تو وہاں سے دوسروں کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے چیزیں لائیں گے۔ انہیں وہیں سے اپنی بیٹی کے جہیز کا سامان لانا ہے تو وہ خود وہاں چلی جائیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے سفر کا بنیادی مقصد بھی ویسے خریداری کرنا ہی ہوتا ہے۔ ہم اپنے سفر پر لاکھوں روپے لگاتے ہیں تاکہ وہاں سے اپنے گھر اور اپنے جاننے والوں کے لیے ایسی چیزیں لا سکیں، جنہیں دیکھ کر وہ حیران و پریشان رہ جائیں۔
کہیں جا کر وہاں کی خوبصورتی اور ثقافت دیکھنا، کچھ دن یا ہفتے سکون سے رہنا اور نئے تجربات کرنا ہمیں آتا ہی نہیں ہے۔ ہمیں زندگی جینا سیکھنا پڑتا ہے۔ سفر کا بنیادی مقصد دنیا تسخیر کرنا، اپنے تجسس کو پورا کرنا اور اپنی مصروف زندگی سے کچھ دن نکال کر آرام کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم وہ دن بھی پریشانی میں گزار دیں تو ہمیں اس سفر کا کیا فائدہ ہوا۔
ہم دیسیوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں جائیں، ہمیں وہاں اپنے پراٹھے، دال، سبزی، کڑاہی اور بریانی ڈھونڈنا ہوتی ہے۔ ایسے ریستوران مقامی ریستورانوں کے مقابلے میں مہنگے ہوتے ہیں اور ان کا کھانا بھی اچھا نہیں ہوتا۔ ہم پھر بھی وہاں کھانا کھاتے ہیں اور اپنے سفر کے اخراجات بڑھاتے ہیں۔
سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنا سفر اپنے لیے باعثِ راحت بنانا چاہیے نہ کہ باعثِ پریشانی۔ کہیں جا کر بھاری بھر کم سوٹ کیس کھینچنے اور انہیں مزید بھاری بنانے کے بجائے وہاں کی ثقافت سے لطف اندوز ہونے اور نئے نئے تجربات کرنے کی کوشش کریں۔ سامان ایک نہ ایک دن پرانا ہو جاتا ہے۔
پھر ہم اسے اپنے گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں لیکن یادیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ وہ تاعمر ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ اپنا سفر ان یادوں کے لیے کریں، نہ کہ دوسروں کی فرمائشوں کو پورا کرنے کے لیے۔