افغانستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی سربراہ ہسیاؤ وی لی نے کہا ہے کہ عالمی امداد میں کمی اور امریکہ کی غیر ملکی فنڈنگ ممکنہ طور پر منجمد ہونے کے بعد ادارہ لاکھوں ضرورت مند افغانوں میں سے صرف نصف کو خوراک فراہم کر پا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سے لوگ صرف روٹی اور چائے پر گزارہ کر رہے ہیں۔‘
2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان شدید معاشی بحران کے دہانے پر پہنچ گیا۔ ملک کی تمام ترقیاتی اور سکیورٹی امداد منجمد اور بینکاری کے شعبے پر پابندیاں بھی عائد کر دی گئیں۔
اس کے بعد سے انسانی امداد، جو غیر منافع بخش تنظیموں کے ذریعے فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فراہم کی جاتی ہے اور حکومتی کنٹرول کو نظرانداز کرتی ہے، نے کچھ حد تک اس خلا کو پُر کیا۔ لیکن حالیہ برسوں میں عطیہ دینے والے ملکوں نے امداد میں مسلسل کمی کی۔ یہ ممالک طالبان کی خواتین پر پابندیوں، جیسے کہ افغان خواتین کے غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے پر پابندی کی وجہ سے فکر مند ہیں اور دوسرے عالمی بحرانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
لی نے اپنی تین سالہ مدت مکمل ہونے سے کچھ دیر قبل روئٹرز کو بتایا کہ فنڈنگ میں کٹوتی کے باعث اس سال کی سخت سردیوں کے دوران تقریباً ڈیڑھ کروڑ افغانوں میں سے نصف، جنہیں خوراک کی اشد ضرورت ہے، کو راشن فراہم نہیں کیا جا سکا۔
ہفتے کو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’60 لاکھ سے زیادہ لوگ جو شائد دن میں ایک یا دو وقت کا کھانا کھا پاتے ہیں وہ صرف روٹی اور چائے پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی امداد بند کر دی گئی ہے بدقسمتی سے ان کی حالت ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں افغانستان کے انسانی امدادی منصوبے کے لیے مطلوبہ فنڈز کا صرف نصف سے کچھ زیادہ حصہ پورا ہو سکا۔ امدادی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس سال یہ مزید کم ہو سکتا ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے جمعے کو تمام موجودہ غیر ملکی امداد کے لیے ’کام بند کرنے‘ کا حکم جاری کیا اور نئی امداد کو بھی روک دیا۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم کے بعد سامنے آیا جس میں امداد کی تقسیم کو ان کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس پر نظرثانی کا کہا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ فوری طور پر واضح نہیں کہ اس فیصلے کا افغانستان میں انسانی امدادی کارروائیوں پر کیا اثر پڑے گا، جنہیں 2024 میں 40 فیصد سے زیادہ فنڈنگ امریکہ سے ملی، جو عطیہ دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
ہسیاؤ وی لی نے کہا کہ ’میرے خیال میں افغانستان کے لیے امداد میں کسی بھی ممکنہ کمی پر یقیناً تشویش ہوگی، چاہے وہ عالمی خوراک پروگرام کے لیے ہو یا کسی اور ادارے کے لیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان میں ضروریات کی سطح بہت زیادہ ہے۔ میں یقینی طور پر امید کرتی ہوں کہ فیصلوں اور ان پر عمل درآمد میں یہاں کے لوگوں، خواتین اور بچوں کی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے گا۔‘
مغربی سفارت کاروں اور امدادی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کو دی جانے والی امداد میں کمی کی وجوہات میں عالمی ہنگامی حالات جیسے سوڈان، یوکرین اور غزہ کے بحران کے ساتھ ساتھ طالبان کی خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے خدشات شامل ہیں۔
گذشتہ ہفتے، عالمی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر نے اعلان کیا کہ انہوں نے طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ سمیت دو رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے کی درخواست دی۔ ان رہنماؤں پر خواتین اور لڑکیوں پر مظالم کے الزامات لگائے گئے۔
ہسیاؤ وی لی نے کہا کہ گذشتہ تین سالوں میں کام کا ماحول ’رولر کوسٹر‘ کی مانند رہا لیکن عالمی خوراک پروگرام عطیہ دہندگان پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ خواتین پر پابندیوں کے باوجود وہ اب بھی خواتین اور ان کے بچوں تک امداد پہنچا رہا ہے۔
اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ افغان خواتین کو این جی اوز میں کام بند کرنا ہوگا، تاہم کئی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہیں خاص طور پر صحت کے شعبے جیسے شعبوں میں استثنیٰ دیا گیا ہے۔
لی نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام اپنا طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے اور فنڈنگ میں کمی اور سرکاری پابندیوں کے باوجود خواتین تک امداد پہنچانے میں کامیاب رہا ہے۔