ضلع کرم میں حالیہ کشیدگی کے پیش نظر سکائی ونگز ایوی ایشن نے جمعرات کو اعلان کیا کہ پاڑہ چنار میں امدادی کاموں کے لیے ایئر ایمبولینس سروس چلائی جائے گی۔
ضلع کرم میں دو فریقین کے درمیاں مسلح تصادم کی وجہ سے 100 سے زائد اموات کے بعد مرکزی پاڑہ چنار شاہراہ گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ جب تک ضلع کرم میں اسلحہ جمع نہیں کروایا جاتا تب تک مرکزی ٹل پاڑہ چنار شاہراہ کو نہیں کھولا جائے گا۔ اسلحہ جمع کرانے کے لیے فریقین کو یکم فروری تک کا وقت دیا گیا ہے۔
اس سے قبل میڈیا میں خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ضلع کرم میں کشیدہ صورت حال میں ادویات کی قلت سے 100 بچوں کی اموات ہوئیں تاہم اس بات کی تردید خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف اور فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سوشل ورکر سعد ایدھی دونوں نے کی۔
فیصل ایدھی نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گرڑو سے گفتگو میں کہا کہ ’ریکارڈ پر اب تک (بچوں کی) 31 یا 32، 33 اموات ہیں۔‘
چیف ایگزیکٹو افیسر (سی ای او) سکائی ونگز ایوی ایشن عمران اسلم خان نے ایک بیان میں کہا کہ ’ایئر ایمبولینس سروس کے لیے دو طیارے فوری پاڑہ چنار بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سول ایوی ایشن طیارے کی ایسپکشن کے بعد فوری طور پر پاڑہ چنار کے لیے ایئر ایمبولینس سروس کے فلائٹ آپریشن کی اجازت دے۔
عمران اسلم خان نے کہا کہ ’پاڑہ چنار کے فضائی آپریشن کے لیے ڈائمنڈ ڈی اے 40 طیارہ اور دوسرا جدید پائپر سینیکا طیارہ مختص کیا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اپنے بیان میں کہا کہ کرم میں تمام ضروری ادویات روزانہ کی بنیاد پر پہنچائی جا رہی ہیں۔
میڈیا میں خبروں کے حوالے سے تردید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’چند شرپسند عناصر عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ ’من گھڑت اور بے بنیاد خبروں پر یقین نہ کریں۔‘
کرم میں کشیدگی، روڈ بندش اور امدادی کارروائیاں
رواں ماہ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے کہا تھا کہ ضلع کرم میں کشیدگی اور اسے پاکستان کے دیگر حصوں سے ملانے والی مرکزی شاہراہ ٹل پاڑہ چنار کی بندش کے باعث علاقے میں ادویات کا بحران ہے، جس کے باعث کینسر، ذیابیطس سمیت مختلف امراض کے شکار مریضوں کا روزمرہ علاج نہیں ہو رہا۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاڑہ چنار میں ریلیف آپریشن بہت بڑا ہے، جسے ہم زیادہ دن نہیں چلا سکتے۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور ہم چند روز تک ہی ریلیف کا کام کر سکتے ہیں۔‘
بقول فیصل ایدھی: ’ادویات کی کمی اور ٹھند کے باعث کمسن بچے نمونیہ سے مر رہے ہیں۔
’کرم میں موجودہ حالات میں ایک دن میں 10 سے 15 مریضوں کو علاج کے لیے پشاور منتقل کرنا ضروری ہے۔ ہمارا جہاز چھوٹا ہے، جس میں سٹریچر والے ایک مریض اور بیٹھ کر سفر کرنے والے دو مریضوں کو پشاور منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے جہاز سے مریضوں کی منتقلی کرتے ہیں تو کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔‘
اس سال کشیدہ صورت حال تب شروع ہوئی جب 21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقے اوچت میں پولیس کے مطابق ایک مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 42 افراد جان سے گئے تھے۔
اسی حملے کے اگلے روز مشتعل مظاہرین نے لوئر کرم میں پولیس کے مطابق 22 نومبر کو بگن بازار میں دکانوں اور گھروں کو آگ لگا کر جلایا تھا۔
اس کے بعد قبائل کے مابین کرم کے مختلف علاقوں میں جھڑپیں جاری رہیں جس میں پولیس کے مطابق 133 افراد جان سے گئے تھے۔