فروری 2024 میں ’متنازع انتخابات‘ کے بعد پہلی بار حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ پاکستان میں نئے سال کا آغاز ایک امید کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔
جانے والے سال میں دونوں فریقوں کے درمیان شدید محاذ آرائی ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے جیل میں قید رہنما عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کے لیے کئی مرتبہ سڑکوں پر اتری۔
نومبر میں ہونے والے آخری احتجاج میں دارالحکومت عملی طور پر محاصرے میں تھا جس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور اپوزیشن کارکنوں دونوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
اب جو مذاکرات شروع ہوئے ہیں وہ ابتدائی مرحلے میں ہیں اور انہیں وزیراعظم شہباز شریف اور یقیناً عمران خان کی بھی توثیق حاصل ہے۔
ان مذاکرات کا دور پارلیمنٹ میں ہوا جس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی نے کی، تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ دونوں فریق اس بات چیت میں کتنے سنجیدہ ہیں اور کیا ان کے درمیان گہرے عدم اعتماد کو دیکھتے ہوئے یہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ابتدائی طور پر دونوں فریق ایک دوسرے کی سنجیدگی کا جائزہ لیں گے۔
لیکن فی الحال بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو کم کر دیا ہے اور اپوزیشن کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی دھمکی پر عمل درآمد کو روک دیا گیا ہے۔
2024 میں حکومت اور اپوزیشن کے شدید تصادم کے دوران حکمران اتحاد دباؤ میں رہا جب کہ پی ٹی آئی اپنے مظاہروں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
درحقیقت پچھلے کئی مہینوں میں نہ تو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن نے اس محاذ آرائی میں کوئی فیصلہ کن بالا دستی حاصل کی۔ اس تعطل نے دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کیا ہے۔
اگر سیاسی استحکام حاصل ہو جائے تو یہ اس معیشت کو سنبھالنے کی کوششوں پر مثبت اثر ڈالے گا جو ابھی تک مسائل سے باہر نہیں نکلی۔ یہ سچ ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ نے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کو ٹالنے میں مدد کی ہے اور ایک مستحکم عنصر کے طور پر کام کیا ہے۔
حکومت نے ستمبر میں آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا جس کے لیے مالیاتی نظم و ضبط، سبسڈیز کی حد بندی اور ٹیکس اور کفایت شعاری کے اقدامات جیسے کئی شرائط پوری کرنا پڑیں لیکن اصل چیلنج آگے ہے یعنی سخت اقدامات کو نافذ کرنا اور استحکام سے اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری حاصل کرنا۔
اس کے لیے سیاسی انتشار اور غیر یقینی صورت حال کے خاتمے کی ضرورت ہے جس نے پہلے ہی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
اس لیے سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے سیاسی تناؤ میں کمی ضروری ہے۔
صرف استحکام ہی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکتا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ان مذاکرات میں معاشی اصلاحات پر بھی اتفاق پیدا ہو جائے، جو ابھی تک ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، تو یہ مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کے لیے ایک بہت ہی مثبت پیغام بھیجے گا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ اور بھی چیلنجز ہیں جن کا 2025 میں مقابلہ کرنا ہے جن کا حل نکالنے میں سیاسی استحکام کی فضا سے مدد ملے گی۔
ان میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات شامل ہیں۔ 2024 میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے سے ان صوبوں میں کم از کم ایک ہزار شہری اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی جانیں گئیں۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرح ایک بڑا سکیورٹی خطرہ سمجھا جانے لگا ہے۔
دریں اثنا کرم ضلع میں تشدد نے نومبر میں 200 کے قریب جانیں لے لیں۔ حکومت کی ثالثی میں ہونے والے سخت امن معاہدوں کے باوجود وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی ابھی تک حل نہیں ہوئی۔
ان سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے درمیان فعال تعاون کی ضرورت ہے کیوں کہ صوبے کو بڑھتی ہوئی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں اور فرقہ وارانہ تنازعات کا سامنا ہے۔
وفاقی نظام ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مرکز اور صوبوں کے درمیان تعاون پر مبنی تعلقات کی ضمانت دیتی ہے۔
مذاکرات میں پیش رفت کے لیے دونوں فریقوں کو لچک اور ایک دوسرے کو جگہ دینی ہوگی۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ، جو سیاسی کھیل میں شامل رہی ہے، کو بھی مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ فوج کا مثبت کردار غیر جانبدار ثالث کے طور پر ہونا چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے موجودہ مؤقف پر قائم رہے، جو بڑے پیمانے پر جانبدار سمجھا جا رہا ہے۔
حکومت کو اپنے جابرانہ اقدامات ختم کرنے ہوں گے اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف غیر سنجیدہ مقدمات واپس لینے ہوں گے، قابلِ ضمانت ’جرائم‘ میں قید افراد کو رہا کرنا ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ پی ٹی آئی کے سینکڑوں زیر حراست کارکنوں کو بھی جیلوں سے نکالنا ہو گا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کو اپنی اشتعال انگیز احتجاجی سیاست کو معطل کرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر خلل ڈالنے والے طرز عمل سے گریز کرنا ہوگا۔
اسے اپنی لڑائی سڑکوں پر لڑنے کی بجائے پارلیمنٹ میں لڑنے کا عزم کرنا چاہیے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کو احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرنے کے بجائے اپنے صوبے میں اچھی حکمرانی پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ مذاکرات ممکنہ طور پر عدم تسلسل کا شکار رہیں گے کیوں کہ فریقین کے درمیان عدم اعتماد ہے اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کاروں کو مسلسل جیل میں قید اپنے رہنما سے ہدایات لینا پڑیں گی۔
سیاسی مفاہمت، جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے، شاید اب بھی دور کی بات ہو لیکن اگر دونوں فریق کسی متفقہ طرز عمل پر رضامند ہو جائیں تو یہ ملک میں وہ داخلی امن لانے میں مدد دے گا جس کی طویل عرصے سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
ملیحہ لودھی سابق پاکستانی سفیر ہیں جنہوں نے امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ میں خدمات انجام دی ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔