پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی دیوان فاروق موٹرز لمیٹڈ نے جلد ہی مقامی مارکیٹ میں کمرشل الیکٹرک ٹرک ’کاما‘ متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔
دیوان فاروق موٹرز کے ڈائریکٹر پراجیکٹس کاشف ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کاما نام کا یہ کمرشل الیکٹرک ٹرک ڈیزل پر چلنے والے شہ زور ٹرک کی ساخت کا ہے۔ اس کے تمام پرزے پاکستان آ چکے ہیں جنہیں مقامی طور پر اسمبل کرکے آئندہ سہ ماہی میں اس کا افتتاح کر دیا جائے گا۔‘
کاشف ریاض نے کہا: ’یہ لائٹ کمرشل وہیکل ہے، جس کی 300 کلومیٹر کی رینج اور فاسٹ چارجنگ ہے۔
’کمرشل ٹرک میں ایندھن کا بہت خرچ ہوتا ہے، جب ٹرک الیکٹرک ہو جائے گا تو آمدن میں اضافہ ہو گا۔ سال 2025 میں اس ٹرک کی مقامی سطح پر اسمبلنگ شروع ہو جائے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ٹرک کی قیمت ابھی نہیں بتائی جا سکتی مگر اس پر عمل جاری ہے، یقیناً قیمت کا ایندھن کی بچت کے ساتھ موازنہ کریں گے تو بہت فائدہ نظر آئے گا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیوان فاروق موٹرز نے ہی پاکستان میں مقامی سطح پر اسمبل کی جانے والی الیکٹرک گاڑی ’ہونری‘ کے دو ماڈلز بھی متعارف کروائے تھے۔
الیکٹرک گاڑی ہونری کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کاشف ریاض نے کہا کہ ’عام طور پر پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنی والی کمپنیز مکمل طور پر تیار گاڑیاں باہر سے لاکر مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ دیوان موٹرز کی ہونری وی ای مکمل طور مقامی سطح پر اسمبل کی جانے والی پاکستان کی پہلی الیکٹرک گاڑی ہے۔‘
بقول کاشف ریاض: ’یہ گاڑی جو چین کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔ اس گاڑی کے دو اقسام ہیں۔ ایک بیٹری میں 200 کلومیٹر اور دوسری 300 سو کلومیٹر کی رینج والی ہے۔ صرف دو مہینوں میں ہماری 100 سے زائد گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
‘یہ عام آدمی کی گاڑی ہے۔ اس گاڑی میں ایندھن کی 70 فی صد بچت ہوتی ہے۔ اگر آپ روزانہ 200 کلومیٹر کا ایندھن استعمال کرتے ہیں تو یہ بچت ایک سال میں قریباً سات لاکھ روپے بنتی ہے۔
پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے کتنے کارخانے اور سالیانہ پیداواری صلاحیت اور الیکٹرک گاڑیاں بنانے کی کتنی گنجائش ہے؟
کاشف ریاض کے مطابق پاکستان میں ٹیوٹا، ہونڈا، سوزوکی، چنگان سمیت گاڑیاں بنانے والے کمپنیز کے پاس 14 کارخانے ہیں جن میں سالانہ 10 لاکھ گاڑیاں بنانے کی صلاحیت ہے، مگر یہ کارخانے اس وقت صرف تین لاکھ گاڑیاں بنا رہے ہیں۔ گاڑیاں بنانے کی صلاحیت ہونے کے باوجود اس کو استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔
کاشف ریاض کے مطابق: ’پاکستان میں 10 لاکھ گاڑیاں بنانے کی صلاحیت رکھنے والی کمپنیز سالانہ تین لاکھ گاڑیوں کی پیداوار میں اگر 30 فی صد اضافہ کریں تو دو سے ڈھائی لاکھ گاڑیاں سالانہ مزید بن سکتی ہیں۔
‘اور یہ نئی تمام گاڑیاں اگر الیکٹرک ہوں تو نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن ہو گا بلکہ عالمی بینک کی جانب سے کاربان کریڈٹس بھی مل سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ہمارے پاس گنجائش ہے، لوگ ہیں، تربیت ہے۔ ہم مقامی طور پر گاڑیاں تیار کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں کبھی بھی گاڑی مقامی سطح پر تیار نہیں ہوئی۔ کیوں کہ انجن اور ٹرانسمیشن باہر سے آتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’الیکٹرک گاڑیوں کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ 100 فی صد گاڑی پاکستان میں بن سکتی ہے، اس کی وجہ ہے کہ ہمارے پاس لیتھیم موجود ہے، ہم بیٹری بھی بنا سکتے ہیں۔
’الیکٹرک گاڑی میں انجن اور ٹرانسمیشن ہوتی ہی نہیں ہے۔ دیگر پارٹس اگر پاکستان میں بنائیں، بیٹری بنائیں تو دنیا کو برآمد بھی کر سکتے ہیں۔‘
حکومت کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کاشف ریاض نے کہا کہ ’الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی سطح پر پیداوار کے لیے حکومت اگر ڈیوٹی پر زیادہ چھوٹ دے تو پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘