متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں 19ویں صدی کے نامور ماہر تعلیم اور علی گڑھ یونیورسٹی اور تحریک کے بانی سر سید احمد خان کی وفات کے تقریباً 126 سال کے بعد ان کی زندگی پر انڈیا میں ایک ویب سیریز بنی ہے۔
اس سیریز کو 19 دسمبر 2024 کو ایپل ٹی وی پر ریلیز کردیا گیا ہے۔
18 دسمبر کو اس سیریز کی عوامی سکریننگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی گئی۔ یہ ویب سیریز دراصل چھ قسطوں پر ہے، ہر ایک قسط 45 منٹ پر مشتمل ہے۔
پیشے سے فلم ساز شعیب چوہدری نے بتایا کہ دراصل وہ چاہتے تھے کہ انڈین اوٹی ٹیز اسے ریلیز کریں۔
’تاہم سرسید کے نام اور ان سے جڑے غیر ضروری سیاسی تنازعات، خاص طور موجودہ حکومت میں اسے ریلیز کرنے میں انڈیا کی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز ہچکچارہی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ حالانکہ ابھی تک انہیں کسی اوٹی ٹی پلیٹ فارم نے منع نہیں کیا تاہم انہیں جو بتایا گیا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ ’سرسید پر ویب سیریز پر ابھی ریویو کیا جا رہا ہے۔ تو جو ہندوستانی چینلز ہیں جن میں سرکاری چینلز بھی شامل ہیں وہ پچھلے تین مہینے سے اس کو ریویو کر رہے ہیں، ظاہری وجوہات سے۔ اب وہ وقت لیں، اس کو ریلیز کریں یا نہ کریں شاید، مجھے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔‘
شعیب چوہدری کے مطابق سرسید احمد خان ہندوستانی تاریخ کی ان شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہیں صحیح طریقے سے سمجھا نہیں گیا۔ ان کے مطابق ان پر ایک تفصیلی ویب سیریز وقت کی ضرورت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں اس ویب سیریز کو بنانے میں تقریباً 11 سال لگے۔ ’چونکہ سرسید احمد کی زندگی خالص جدو جہد اور اصلاحی سرگرمیوں سے بھری تھی، اس لیے ان کی زندگی کا ہر گوشہ سمجھنا ضروری تھا۔ یہ بائیوپک مولانا الطاف حسین حالی، جو سر سید کے ہم عصر تھے، انہوں نے ایک سوانح لکھی تھی جس کا نام حیاتِ جاوید ہے، یہ فلم اسی سے ماخوذ ہے۔‘
چوہدری بتاتے ہیں کہ ’ہم اسے ایک فلم کی شکل میں بنانا چاہ رہے تھے۔ لیکن کیونکہ اس پر ڈاکیومینٹریز بہت بن چکی تھیں اور کوئی ایک مکمل فکشن بیسڈ فلم نہیں بنی تھی تو وہ ہمارا ارادہ تھا کہ وہ ہم بنائیں، لیکن کیونکہ پھر اس کے لیے بہت بڑے وسائل چاہیے تھے اور ہمارے پاس جو بھی محدود وسائل موجود تھے تو ہم کو سمجھ میں آیا کہ فلم ہماری بساط سے باہر ہے، تو ہم نے اسے ایک ویب سیریز میں بدل دیا۔‘
سیریز کا نام ’سر سید احمد خان، ایک مسیحا‘ ہے، اس میں اردو کا استعمال کیا گیا ہے ۔
سرسید کا رول خود شعیب چوہدری نے ادا کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں اس دوڑ میں کہیں بھی نہیں تھا۔ سرسید کے قد اور ان کے رنگ کے جیسا ایکٹر تلاش کرنا جو اس رول کو نبھا سکیں مشکل رہا، کچھ لوگ ملے۔ ایک صاحب کو طے کیا، لیکن انہوں نے دو روز قبل عذر پیش کر دیا۔
’اب سیٹ تیار تھا، ساری تیاریاں تھیں، تو میرے قد اور رنگ کو دیکھ کر لوگوں نے مجھے ہی آگے کر دیا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ تقریباً اس میں 250 کردار ہیں اور اس کی شوٹنگ ہمیں مکمل کرنے میں تقریباً دو سال لگے۔ ہم چاہتے تھے علی گڑھ میں شوٹ کرنا لیکن کسی وجہ سے نہیں کر پائے تو ہم نے میرٹھ میں، گجرات، بمبئی میں سیٹس بنائے۔
سرسید کے صاحبزادے سید محمود، جو انگریزی عہد کے پہلے مسلم جج رہے، ان کا کردار اکشے آنند نے ادا کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ رول بہت ہی گہرائی والا لگا کیونکہ اس میں کئی سارے پہلو تھے جو ایک ایکٹر کو کبھی کبھی نہیں ملتے ہیں ایک رول میں کرنے کو۔‘
اداکارہ دیکشا تیواری نے پارسا بیگم، سرسید احمد خان کی اہلیہ کا کردار نبھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ اس وقت کی بات ہے جب بہت زیادہ عورتوں کے بارے میں لکھا نہیں جاتا تھا۔ کیونکہ فلم کے دوران جب میں نے پارسا بیگم کے بارے میں پڑھنا چاہا تو مجھے ایسی بہت ساری جانکاری نہیں ملی۔ لیکن فلم کرنے کے دوران میں نے یہ پایا کہ وہ سر سید کی پرچھائی کی طرح رہی ہیں۔
’ان کی ہر پسند میں ان کی پسند جڑی ہے، ان کے ہر فیصلے میں ان کا فیصلہ تھا۔ تو میں نے سر سید کی جو پسند ہے، جن چیزوں کو وہ پسند کرتے تھے، جس طریقے کے نظریے کو وہ اپناتے تھے، اس طرح سے پارسا بیگم نے ان چیزوں کو کیسے اپنایا ہے، میں نے اس چیز کو بنیادی بنایا۔‘
سمویدنا سوالکا نے سر سید کے بیٹے سید محمود کی اہلیہ مشرف جہاں کا رول ادا کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’عورتوں میں بہت زیادہ قوت ہوتی ہے اور اس وقت بھلے ہی ان کے پاس اپنی آزادی نہیں ہوا کرتی تھی یا ان کے پاس نوکری نہیں ہوتی تھی، تو وہ منحصر ہوتی تھیں اپنے خاندان پر، اپنے شوہر پر۔ اور اس وجہ سے آپ چاہے خوش نہ بھی ہوں، آپ کو نبھانا پڑتا تھا۔ شاید آج وہ چیز تھوڑی سی بدل رہی ہے، لیکن عورتوں میں جو قوت ہے وہ ہمیشہ رہی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو میں نے خود اپنے گھر میں بھی دیکھی ہے۔‘