جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے ہفتے کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچوں کے لیے پہلے سے نامزد ججوں کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی ہے۔
اس فیصلے کا اعلان سپریم کورٹ کی جانب سے اعلامیہ کے ذریعے کیا گیا جو آٹھ گھنٹے سے زائد چلنے والے اجلاس کے بعد جاری کیا گیا۔
جوڈیشل کمیشن کے رکن نے اس ضمن میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا ہے کہ کمیشن نے سپریم کورٹ آئینی بینچ کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع نو۔سات کے تناسب سے کی ہے۔ جبکہ آئینی بینچ کی تشکیل برقرار رکھنے کا فیصلہ آٹھ۔سات کے تناسب سے ہوا۔
رکن نے بتایا کہ جسٹس جمال مندوخیل نے تمام سپریم کورٹ ججز کو آئینی بینچ میں شامل کرنے کی تجویز دی۔
انہوں نے بتایا کہ ’جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں نئے رولز کے تحت ایڈیشنل ججز کے لیے نامزدگیاں تین جنوری تک طلب کر لی ہیں۔‘
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے زیر صدارت جوڈیشنل کمیشن اجلاس میں آئینی بینچ میں ججز کی تقرری اور جوڈیشل کمیشن میں قوانین کی منظوری سے متعلق معاملات کا جائزہ لیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے آج دو اجلاس ہوئے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دو نکاتی ایجنڈے میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ججوں کی تقرری سے متعلق مجوزہ قوانین 2024 پر غور اور سپریم کورٹ کے آئینی بینچوں کے لیے ججوں کی نامزدگی کی مدت میں توسیع شامل تھی۔
مزید کہا گیا کہ اجلاس میں ججوں کی تقرری سے متعلق مسودے کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران مانگی گئی عوامی رائے پر بھی غور کیا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں ترامیم کے ساتھ مجوزہ جوڈیشل کمیشن (ججوں کی تقرری) رولز 2024 کی منظوری دی گئی۔
دوسرے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچوں کے لیے پہلے سے نامزد ججوں کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کی منظوری دی۔
اجلاس میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
جج تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت
اس اجلاس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو خط لکھا تھا۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’قوانین میں آئینی بینچ کے لیے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار ہونا چاہیے جبکہ آئینی بینچ میں کتنے ججز ہوں اس کا مکینزم بنانا بھی ضروری ہے۔‘
خط کے مطابق آئینی بینچ میں ججز کی شمولیت کا پیمانہ طے ہونا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں ’کس جج نے آئینی تشریح والے کتنے فیصلے لکھے یہ ایک پیمانہ ہو سکتا ہے‘ کی تجویز دی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ کمیشن پیمانہ طے کیے بغیر سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دے چکا ہے۔
اس خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے ججز تعیناتی سے متعلق قوانین پر مجموعی رائے دی اور جج تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسی کو کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں اکثریت پہلے ہی ایگزیکٹو کی ہے، 26ویں ترمیم سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہوں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں فل کورٹ پہلے تشکیل دے کر 26ویں ترمیم کا جائزہ لینے کی تجویز بھی دی۔
’قوانین پر میری رائے اس ترمیم اور کمیشن کی آئینی حیثیت طے ہونے سے مشروط ہے۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’جج آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرنے کا حلف لیتا ہے، لہذا ججز تعیناتی کے رولز بھی اسی حلف کے عکاس ہونے چاہیے۔‘