پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں پیش آئے سانحے کے دس سال مکمل ہونے پر کہا ہے کہ یہ ایک ایسا دل سوز واقعہ تھا جس کی یاد ایک دہائی سے ’ہمارے دلوں کو مضطرب‘ کر رہی ہے۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر 2024 کو حملے کے نتیجے میں بچوں اور اساتذہ سمیت 150 افراد مارے گئے تھے۔
سانحے کے دس سال مکمل ہونے پر پنجاب اور اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے آج یعنی 16 دسمبر کو تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’مجھ سمیت پوری قوم ہمارے بچوں اور اساتذہ کی بہادری کو سلام، خراج عقیدت، ان کے خاندانوں کی قربانیوں اور ہماری سکیورٹی فورسز کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔‘
انہوں نے سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے کہا کہ ’ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘
اے پی ایس واقعے کے 10 سال: کیا حملے کے بعد پاکستان بدل گیا ہے؟
اے پی ایس پر 16 دسمبر 2014 کو حملے کے بعد دہشت گردی کو ملک سے ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان نامی منصوبے کو ترتیب دیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری حکام نے ملک سے شدت پسندی ختم کرنے کا اعادہ کیا تھا۔
تاہم موجودہ صورت حال میں مبصرین کے مطابق اس حملے کے بعد ملک میں شدت پسند کارروائیوں میں کمی آئی تھی لیکن اب دوبارہ خیبر پختونخوا میں ان واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ان کارروائیوں میں اضافہ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت آنا اور وہاں سے کاالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سرحد سے کارروائیاں کرنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دوسری وجہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین سیاسی اختلاف ہے اور کوئی بھی حالات کو قابو کرنے کی ذمہ داری لینے میں ’سنجیدہ نظر نہیں‘ آ رہا ہے۔
سیاسی چپقلش اور شدت پسندی میں اضافہ
محمود جان بابر پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی چپقلش سے شدت پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شدت پسند 2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد آپریشن کے نتیجے میں فرار ہو گئے تھے مگر وہ دوبارہ منظم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
محمود جان بابر نے بتایا کہ ’شدت پسند سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں حکومتیں آپس میں لڑ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے اور کوئی اچھا موقع نہیں مل سکتا۔ شدت پسند یہاں پر آئے اور اس کا فائدہ اٹھایا۔‘
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے میں محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ عمران خان ملک کے مقبول رہنماؤں میں شامل ہیں لیکن ان کا طالبان کے حوالے سے موقف مختلف ہے۔
’عمران خان طالبان کے خلاف کارروائی (آپریشن) کے حق میں بھی نہیں ہیں اور اپنے دور میں ان کو پاکستان لاکر بسایا اور اس کا اقرار بھی کیا۔‘
محمود جان بابر کے مطابق ’جب پی ٹی آئی کے بعد حکومت بنی تو حالات ہاتھ سے نکل گئے تھے اور پھر وہ کارروائی بھی نہیں کر سکتی تھی جبکہ اس سے پہلے کے آپریشنز میں تمام جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔‘
آپریشن اور اعتماد کا فقدان
اے پی ایس حملے کے بعد 2014 میں نیشنل ایکشن پلان بننے کے بارے میں محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ اس پر پلان پر بھی درست طریقے سے عمل نہیں ہو سکا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سانحے کے بعد ایسے اقدمات اٹھائے جاتے ہیں لیکن کچھ دن بعد سب کچھ ٹھنڈا پڑا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر بھی مکمل عمل درآمد نہ ہوسکا۔
موجودہ صورت حال میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن پر سیاسی اختلاف کے حوالے سے محمود جان نے کہا کہ ’سوات آپریشن اس لیے کامیاب ثابت ہو سکا کیونکہ تمام سیاسی اور عسکری قیادت ایک میز پر بیٹھے تھے۔‘
’آپریشن کے دوران اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ، خیبر پختونخوا کے ترجمان میاں افتخار حسین اور فوجی قیادت ایک میز پر بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتے تھے لیکن اب وہ صورت حال نہیں ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمود جان بابر نے بتایا کہ اب وفاقی حکومت ایک طرف اور خیبر پختونخوا حکومت دوسری سمت میں جا رہی ہے، اسی وجہ سے عوام کا ’آپریشن پر اعتماد نہیں‘ بن رہا ہے۔
’صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین اختلاف کی وجہ سے فوج ظاہری بات ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی تو کرے گی اور اسی سیاسی اختلاف کی وجہ سے ان کارروائیوں پر عوام کا اعتماد نہیں بند رہا۔‘
رفعت اللہ اورکزئی پشاورمیں مقیم صحافی و تجزیہ کار ہیں اور اے پی ایس حملے کی قریب سے کوریج کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2014 کے بعد آپریشن پر عوام کا اعتماد برقرار تھا اور لوگ بے گھر ہونے کے بعد واپس اپنے علاقوں میں پہنچ گئے۔ تاہم اس کے بعد اب جو سیاسی اختلاف بنا ہے تو اس کی بنیادی وجہ سٹیک ہولڈرز کا ایک پیج نہ ہونا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں جو آپریشن بھی کیا جاتا ہے تو اس کے لیے صوبائی حکومت اور سیاسی قیادت کی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ابھی صورت حال مختلف ہے۔‘
اسی طرح رفعت اللہ اورکزئی کہتے ہیں کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف شدت پسندی کے معاملے کو سنجیدہ ہی نہیں لیتے اور اس کی وجہ بھی صوبائی حکومت کے ساتھ سیاسی اختلاف ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’نیشنل ایکشن پلان میں اس وقت سخت سیاسی مخالفین بھی ایک پیج پر آگئے تھے لیکن ابھی معاملہ یکسر مختلف ہے اور اے پی ایس حملے کو بھول چکے ہے۔‘