پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اتوار کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے انہیں عندیہ دیا ہے کہ اب افغانستان سے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں گفتگو کے دوران انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ذکر کیے بغیر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ’جیسے پہلے میں نے مذاکرات کی بات کی تھی تو وفاقی حکومت نے اب افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے مجھے بتایا ہے۔‘
’پہلے ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بتایا تھا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اب پوری دنیا نے ان کو اون کرلیا ہے تو ہمیں بھی ان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں کیونکہ مذاکرات کے بغیر ہمارا یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔‘
علی امین گنڈاپور نے بتایا کہ اس وقت ان کے (افغانستان) کے 16 سے 18 ہزار عناصر ہماری طرف (پاکستان میں) ہیں جبکہ ہمارے 22 سے 24 ہزار ناصر افغانستان میں موجود ہیں۔
’جب یہ یہاں سے وہاں یا وہاں سے یہاں آتے ہیں تو کارروائی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ سرحد کے اس پار ہم نہیں جا سکتے اور وہ ہماری پہنچ سے نکل جاتے ہیں۔‘
علی امین گنڈاپور کے مطابق: ’اس بات پر یہ لوگ (وفاقی حکومت) راضی نہیں ہو رہے تھے تو مجبوراً میں نے کہا تھا کہ اگر میرا صوبہ ہے، مسئلہ یہاں ہے اور ہمارے لوگ مر رہے ہیں تو اس لیے میں نے خود مذاکرات شروع کرنے کی بات کی تھی۔‘
وزیر اعلیٰ کے مطابق میری اسی بات سے انہوں نے سمجھا کہ یہ میں ذاتی طور پر مذاکرات کی بات کر رہا ہوں، لیکن اب وفاقی حکومت اس بات پر آ گئی ہے اور مجھے کہا ہے کہ مذاکرات شروع کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر مسئلے کا حل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل سست روی کا شکار ہے کیونکہ جب تک آپ کسی کے ساتھ بیٹھیں گے نہیں، کوئی ٹی او آرز نہیں بنائیں گے تو صرف باتوں سے یہ کام نہیں ہوتا۔
’میں اپنی بات پر قائم ہوں کیونکہ افغانستان کے ساتھ اتنی طویل سرحد ہے اور جو ہماری استعداد ہے اور ان کی جو طاقت ہے جنہوں نے سپر پاور کو ہرایا، تو مجھے نہیں لگتا کہ سرحد کو کنٹرول کر کے ہم امن قائم کر سکتے ہیں۔‘
علی امین نے کہا: ’نقصان میرے صوبے کا ہو رہا ہے، معیشت بھی میری صوبے کی خراب ہو رہی ہے کیونکہ جو تجارتی راستے ہیں یا تو وہ بند پڑے ہیں اور یا ان پر تجارت نہیں ہو رہی۔‘
’میں نے مذاکرات کی بات کی تھی لیکن وہ عمل سست چل رہا ہے تو مجبوراً پھر مجھے بات کرنا پڑے گی کہ جہاں تک میرے صوبے کی سرحد ہے تو وہاں تک میرے ساتھ معاملات طے کر لو، اگر ان (وفاقی حکومت) کا آپ سے کوئی مسئلہ ہے اور یہ نہیں کرتے۔‘
علی امین نے بتایا کہ پورے پاکستان کو خیبر پختونخوا کے لوگوں کو شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ہم نے عوام اور سکیورٹی فورسز کی قربانی کی ذریعے ان کو دیگر صوبوں کے ساتھ سرحد تک قابو کیا ہوا اور اسی وجہ سے پورے پاکستان میں امن قائم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہی لوگ پہلے اسلام آباد، کراچی، لاہور اور راول پنڈی میں کارروائیاں کرتے تھے لیکن ہم نے ان کو قابو کیا ہے اور آگے پھیلنے نہیں دے رہے۔
شدت پسندی کو قابو کرنے کے حوالے سے علی امین نے بتایا کہ جنوبی اضلاع سب سے زیادہ متاثرہ ہیں۔
’ہم نے اسی علاقے پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے اور اب ایک ہزار تک پولیس کی مزید بھرتیاں کر رہے ہیں۔ یہ مقامی لوگوں کے ذریعے بھرتیاں ہو رہی ہیں تاکہ وہاں کے مقامی لوگ ان کا مقابلہ کریں۔‘
’ہم اسلحہ اور بم پروف گاڑیوں سمیت سی ٹی ڈی کی استعداد کار بڑھا رہے ہیں اور اب وہاں کوئی نو گو ایریا نہیں۔
علی امین کے مطابق، ‘جنوبی اضلاع میں جو مرکزی دہشت گرد ہیں تو ان کے ساتھ ہمارا مقابلہ جاری ہے اور ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔’
افغانستان سے مذاکرات کے دعوے پر انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس خبر کی اشاعت تک ان کا کوئی موقف نہیں آیا۔
’سول نافرمانی کی تحریک کب اور کیسے شروع ہو گی واضح نہیں‘
علی امین گنڈا پور نے اپنی گفتگو کے دوران واضع کیا کہ ملک میں سول نافرمانی کی تحریک سے متعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان جو فیصلہ کریں گے اس پر من و عن عمل ہو گا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’سول نافرمانی کا اعلان میں نے نہیں عمران خان نے کیا ہے۔
’تحریک سے متعلق عمران خان جو فیصلہ کریں گے اس پر عمل کریں گے، لیکن اب تک سول نافرمانی کا معاملہ واضح نہیں، جب واضع ہدایات آئیں گی تو دیکھیں گے۔
علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ ’اب تک یہ واضح نہیں کہ سول نافرمانی کی تحریک کیسے چلے گی؟ کتنے مرحلوں میں چلے گی اور اس کا آغاز کیسے ہو گا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں جب بھی کوئی تحریک چلتی ہے تو خیبر پختونخوا فرنٹ لائن پر ہوتا ہے۔‘
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ’جتنی مرتبہ میں گیا ہوں، میرے ساتھ لوگوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہی رہی ہے، آنسو گیس ہمارے لیے پرفیوم بن گئی ہے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہمارے 12 لوگ جان سے گئے، کچھ خوف کی وجہ سے خود کو شو نہیں کر رہے۔‘
افغانستان سے عسکریت پسندی کی کارروائیوں سے متعلق ایک سوال پر علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کابل کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہییں۔
’عسکریت پسند سرحد عبور کر جاتے ہیں تو ہماری پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں۔ دہشت گرد پہلے ملک کے دیگر شہروں میں کارروائی کر رہے تھے۔
’ہم نے دہشت گردوں کو روکا ہوا ہے۔ ہم قربانی دے رہے ہیں۔ ہم دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ’افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ پوری دنیا اسے قبول کر چکی ہے۔ افغانستان سے مذاکرات کیے بغیر صوبے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔‘
پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی تحریک
سابق وزیر اعظم عمران خان نے، جو اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں، پانچ دسمبر کو ایک پیغام میں ان کے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
عمران خان کے ایکس اور فیس بک اکاؤنٹس پر پانچ دسمبر کو پوسٹ کیے گئے پیغام میں انہوں نے انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی کے علاوہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر ان دو مطالبات کو نہ مانا گیا تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے گی، جس کے نتائج کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس تحریک کے پہلے مرحلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے غیر ملکی ترسیلات زر نہ بھیجنے کا کہا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کی کال حتمی ہے، جبکہ حکومت میں بیٹھی جماعتوں کے خیال میں یہ مہم کامیاب نہیں ہو پائے گی۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کچھ روز قبل انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’ہماری پولیٹیکل کمیٹی ہے، ایپکس کمیٹی ہے، کور کمیٹی ہے، ہم بات چیت کرتے ہیں، ہم فائدے، نقصان دیکھتے ہیں۔
’مگر خان صاحب نے یہی کہا ہے کہ یہ میری کال ہے اور خان صاحب کی کال ہے تو پھر خان صاحب کی کال ہے اور اورسیز پاکستانی ہیں۔‘