’دلہن کے جہیز‘ میں دی جانے والی ملتان کی ڈولی کی روٹی

’دلہن کے جہیز‘ میں دی جانے والی ملتان کی ڈولی کی روٹی

 یوں تو ملتان صوفیائے کرام کے شہر کے طور پر جانا جاتا ہے مگر اس کی ڈولی روٹی بھی اندرون و بیرون ملک مشہور ہے جسے صدیوں پرانی سرائیکی سوغات کہا جاتا ہے۔

ملتان میں ڈولی روٹی بنانے کے لیے مقبول محمد فہیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈولی روٹی ایک صدیوں پرانی سرائیکی سوغات ہے جو ماضی میں شادی بیاہ کے مواقع پر دلہن کے جہیز میں شامل کی جاتی تھی۔

’یہ روٹی خاص طور پر ان طویل سفروں کے لیے تیار کی جاتی تھی جب بارات گھوڑوں، بگیوں یا اونٹوں پر کئی دنوں کا سفر طے کرتی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا: ’پرانے وقتوں میں دلہن کی ڈولی میں یہ روٹی رکھ دی جاتی تھی تاکہ باراتی دورانِ سفر اسے کھا سکیں، یہ روٹی ایک بہترین کھانے کا ذریعہ ہوتی تھی اور دورانِ سفر باراتیوں کو دنوں تک توانائی فراہم کرتی تھی۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس روٹی کو بنانے کے طریقہ کار کے متعلق محمد فہیم نے بتایا کہ ’یہ میدے، چینی اور آٹے کا خاص امتزاج ہے جسے فرائی کرنے کے بعد ٹھنڈا کر کے پیک کیا جاتا ہے۔ ڈولی روٹی کی سب سے منفرد خاصیت یہ ہے کہ یہ طویل عرصے تک خراب نہیں ہوتی۔ آپ اسے 20 سے 28 دن بغیر فریج کے بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔‘

فہیم کے مطابق: ’پرانے زمانے میں یہ روٹی سادہ ہوتی تھی، لیکن اب نئی نسل کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی مختلف اقسام بنائی گئی ہیں۔ پہلے یہ صرف خشخاس یا گھی والی ہوتی تھی، لیکن اب ہم بادام، پستہ، کاجو، اخروٹ اور کھوئے والی ڈولی روٹی بھی بنا رہے ہیں۔

’ہماری دکان پر 16 مختلف اقسام دستیاب ہیں۔‘

فہیم کا کہنا ہے کہ ڈولی روٹی سرائیکی عوام کی ایک منفرد پہچان ہے۔ ’یہ صرف سرائیکی لوگ ہی بنا سکتے ہیں۔ باقی علاقوں کے لوگوں کو اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے، لیکن جو ایک بار کھا لیتا ہے، وہ اسے دوبارہ ضرور مانگتا ہے۔‘

فہیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی ڈولی روٹی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’امریکہ، یورپ، دبئی، اور سعودی عرب سے لوگ مجھ سے یہ روٹی منگواتے ہیں۔ حتیٰ کہ عمرے پر جاتے ہوئے بھی لوگ یہ روٹی ساتھ لے جاتے ہیں کیونکہ یہ کئی دنوں تک تازہ رہتی ہے۔‘

محمد فہیم نے بتایا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ گذشتہ 40 سال سے اس خاندانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں سرائیکی ثقافت کی یہ مٹھاس پہنچا رہے ہیں۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں