چرنوبل کے کتے بدترین جوہری حادثے سے کیسے بچے؟ سائنس دانوں کو جواب کی تلاش

چرنوبل کے کتے بدترین جوہری حادثے سے کیسے بچے؟ سائنس دانوں کو جواب کی تلاش

چرنوبل کے جوہری حادثے سے متاثرہ علاقے میں خوراک کی تلاش میں سرگرداں آوارہ کتوں کے ایک دوسرے کے مخالف غول شاید زمین کے سب سے زیادہ نامساعد ماحول میں زندہ رہنے کے لیے دیگر جانوروں کی نسبت زیادہ تیزی سے ارتقا کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

سائنس دان دنیا کی بدترین جوہری تباہی کے 36 سال بعد ان نیم جنگلی کتوں پر اس کے اثرات کا تجزیہ کر رہے ہیں جو جوہری بجلی گھر کی بوسیدہ اور ترک شدہ عمارتوں اور ارد گرد پھیلے تابکار ’ریڈ فاریسٹ‘ میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر یہ جنگلی کتے اب بھی تولیدی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور انتہائی سخت موسم سرما کا سامنا کر رہے ہیں جب کہ ان کا انحصار سیاحوں کے چھوڑے بچے کھچے کھانے پر ہوتا ہے، جنہیں ان کتوں کو چھونے سے منع کیا جاتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ انسان ان پانچ سو آوارہ کتوں کی سخت جانی اور بقا سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، جن کی تعداد تباہ کن حادثے اور سوویت دور کی طرف سے پردہ پوشی کے 36 سال بعد بڑھ گئی ہے۔

26  اپریل 1986 کو یوکرین کے چرنوبل پاور پلانٹ میں دھماکے اور آگ کے نتیجے میں تابکاری فضا میں پھیل گئی۔ اس حادثے میں 30 کارکن جان سے گئے جب کہ تابکاری سے ہونے والی طویل مدتی اموات کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔

یہ غول ان کتوں کی نسل سے مانے جاتے ہیں جنہیں ہنگامی انخلا کے دوران خاندانوں نے اپنے پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان سوویت فوجیوں کی کارروائیوں میں زندہ بچ گئے جو تابکاری کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ان کتوں کو مارنے کی کوشش کر رہے تھے۔

سرکردہ محقق ڈاکٹر نارمن کلائمین نے کہا کہ ’کسی نہ کسی طرح کتوں کی دو چھوٹی آبادیاں اس انتہائی زہریلے ماحول میں زندہ رہنے میں کامیاب ہو گئیں۔‘

بجلی گھر کے ارد گرد سے پکڑے گئے نیم جنگلی کتوں اور قریب ہی چرنوبل شہر میں موجود ایک اور غول کے خون کے نمونے جمع کیے گئے۔

جرمن شیفرڈ نسل کے جینیاتی خصائص سے مماثلت رکھنے اور صرف 10 میل کے فاصلے پر موجود ہونے کے باوجود ان آزادانہ افزائش کرنے والی کتوں کی آبادیوں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ پایا گیا۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کتوں کے ڈی این اے کا تجزیہ کرتے ہوئے، تحقیقاتی ٹیم نے ان کے جینوم میں 391 غیرمعمولی حصے دریافت کیے جو دونوں غولوں کے درمیان مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ جینیاتی مرمت کی نشاندہی کرتے ہیں، خاص طور پر چرنوبل جیسی تابکاری کے اثرات کے بعد۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ دہائیوں تک جاری رہنے والے تابکاری کے اثرات نے جانوروں کے جینز کو کس حد تک بدلا اور شاید ارتقا کو بھی تیز کر دیا ہو۔

انہیں امید ہے کہ مستقبل کی تحقیق سے تابکاری کے اثرات کے نتیجے میں جینیاتی تبدیلیوں کا پتہ لگایا جا سکے گا اور دیگر جوہری یا ماحولیاتی آفات کے نتیجے میں جانوروں اور انسانوں کی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکے گا۔

این سی سٹیٹ کے ڈاکٹر میتھیو برین کے مطابق: ’یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہکیا اس پیمانے کی ماحولیاتی تباہی خطے میں زندگی پر جینیاتی اثر ڈالتی ہے؟

’اگر ہم یہ جان سکیں کہ کتوں میں جو جینیاتی تبدیلیاں ہم نے دیکھیں، وہ کتوں کے جینز کا ان اثرات کے خلاف ردعمل ہے جو ان کتوں نے جھیلے۔ اس طرح ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کتوں نے ایسے نامساعد ماحول میں کیسے زندہ رہے اور اس کا مطلب کسی بھی آبادی چاہے وہ جانور ہوں یا انسان، کے لیے کیا ہو سکتا ہے جو ایسے حالات کا سامنا کرتی ہے۔‘

یورپ میں تابکاری کے اثرات کا سب سے پہلے پتہ سویڈن کے حکام نے لگایا جس کے نتیجے میں سوویت حکام، جو اس سانحے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، چند دن بعد اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔

2017  میں جانوروں کا علاج کرنے والے جموریہ چیک کے ایک ادارے نے کہا کہ ملک کے جنوب مغرب میں تقریباً آدھے جنگلی سؤر تابکاری سے متاثرہ ہیں اور انہیں انسانوں کھانے کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

یہ سؤر ایک زیر زمین کھمبی کھاتے ہیں جو مٹی سے تابکاری جذب کرتی ہے۔ آسٹریا اور جرمنی میں بھی تابکار سے متاثرہ جنگلی جانوروں کے ایسے ہی مسائل کی اطلاع دی گئی ہے۔

چرنوبل کے کتوں پر مکمل تحقیق سائنسی جریدے کینائن میڈیسن اینڈ جینیٹکس میں شائع ہوئی۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں