انڈپینڈنٹ اردو کے زیر اہتمام پاکستان کی جامعات میں صحافت کے طلبہ کے لیے شروع کیے گئے پروگرام ’انڈی اِن کیمپس‘ کے تحت انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے گرلز کیمپس میں ’سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال‘ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا۔
انڈی ان کیمپس کا مقصد یونیورسٹیز کے طلبہ کو میڈیا کے بدلتے رجحانات سے متعلق آگاہی فراہم کر کے دوران تعلیم ہی انہیں صحافتی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ان چیف بکر عطیانی نے طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال میں صحافت کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھنا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مکمل تصدیق کر کے درست انداز میں معلومات فراہم کرنا کہ آپ کی ذاتی رائے اس پر اثر انداز نہ ہو، صحافت کا بنیادی اصول ہے۔ اگر ہم ان اصولوں کو مدںظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال کریں تو نہ صرف مس انفارمیشن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے بلکہ خود کو کئی مسائل میں گِھرنے سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے مینیجنگ ایڈیٹر ہارون رشید نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صرف پاکستان میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال نہیں ہو رہا بلکہ یہ پوری دنیا میں پایا جانے والا مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا کے اس دور میں جھوٹ بہت عام ہو گیا ہے بلکہ یہ ایک فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بریگزٹ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے سوشل میڈیا اس فیصلے پر اثر انداز ہوا اور بریگزٹ پر عمل درآمد ہونے کے بعد برطانیہ کے عوام کو احساس ہوا کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا جو انہوں نے سوشل میڈیا مہمات سے متاثر ہو کر کیا جس کا خمیازہ وہ اب بھگت رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بطور پروڈیوسر منسلک سحرش قریشی نے طلبہ کو ’سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال‘ پر مفصل پریزنٹیشن دی جس میں بتایا کہ پاکستان میں گیارہ کروڑ سے زائد افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، جن میں کثیر تعداد سوشل میڈیا صارفین کی ہے۔
طلبہ کے ساتھ گفتگو میں ان کہنا تھا کہ سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے، جہاں اس سے بروقت انفارمیشن ملتی ہے تو وہیں اس کا غیر ذمہ دارانہ استعمال ذاتی اور معاشرتی سطح پر بہت سے مسائل کا سبب بھی بن سکتا ہے، جیسا کہ ہم نے حال ہی میں پاکستان میں دیکھا۔
سحرش نے طلبہ کے ساتھ گفتگو میں پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے ہونے والے حالیہ واقعات، جن میں لاہور میں پنجاب گروپ آف کالجز میں طالبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے معاملے پر صوبے بھر میں پیدا ہونے والی صورت حال اور اسلام آباد کے ڈی چوک میں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) سے بنائی گئی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے اور ایسے دیگر واقعات پر گفتگو کر گئی۔
سوشل میڈیا کے غیرذمہ دارانہ استعمال سے پیدا ہونے والی صورت حال اور اس کا تدارک انفرادی اور اجتماعی سطح پر کیسے ممکن ہے، اس پر بھی بات کی گئی۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین منظور خان آفریدی نے طلبہ کی ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی میں مددگار، انڈی ان کیمپس کو سراہا اور کہا کہ ایسے پروگرامز کے انعقاد سے نا صرف طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
یونیورسٹی کہ طالبہ حمنہ معظم کا کہنا تھا کہ اس سیشن سے میں نے سیکھا کہ جو معلومات بھی آپ کو ملیں، اسے فیکٹ چیک ضرور کریں۔
طالبہ مائرہ صبا کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے لیے سب سے زیادہ ضروری انفرادی خود احتسابی اور ڈیجیٹل لٹریسی ہے۔
طالبات نے انڈپینڈںٹ اردو کی انٹرن شپس کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے انہیں دوران تعلیم ہی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔
سیشن میں طالبات نے فیکٹ چیکنگ کے ٹولز، ٹیکنیکس اور سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے متعلق سوالات کیے جن کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینے کے ساتھ پینلسٹس کا کہنا تھا کہ مس انفارمیشن کا پھیلاو روکنا اجتماعی کے ساتھ انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اسے روکنا وقت کی ضرورت۔