خیبرپختونخوا حکومت نے ضلع کرم میں متحارب قبائل کے درمیان گذشتہ کئی دنوں سے جاری فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد کی اموات کے بعد ہفتے کو خبردار کیا ہے کہ جو بھی اس علاقے میں امن میں خلل ڈالے گا، اسے ’دہشت گرد‘ تصور کیا جائے گا۔
افغانستان کی سرحد سے متصل قبائلی علاقے کرم میں پرتشدد تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے، جہاں حالیہ جھڑپیں 21 نومبر کو شروع ہوئیں، جب مسلح افراد نے لوئر کرم میں ایک قافلے پر حملہ کر کے 41 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
وزیراعلیٰ خیبر پحتونخوا علی امین گنڈا پور نے ہفتے کو کرم کے قریب واقع شہر کوہاٹ میں قبائلی سرداروں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سرکاری افسران پر مشتمل ایک گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’جو کوئی بھی ہتھیار اٹھائے گا، اسے دہشت گرد کہا جائے گا اور دہشت گرد کا انجام جہنم ہے۔‘
گذشتہ ہفتے صوبائی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے متحارب قبائل کے درمیان دشمنی ختم کرنے کے لیے سات روزہ جنگ بندی پر ثالثی کی ہے۔
تاہم ایک مقامی پولیس اہلکار نے ایک دن قبل عرب نیوز کو بتایا کہ خطے میں تشدد بلا روک ٹوک جاری ہے، جہاں گولیوں کی آوازیں گونج رہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں حکومتی دائرہ اختیار نہیں ہے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ’فوج، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے عہدیدار خطے میں پائیدار امن کے حصول کے لیے ٹھوس کوششیں کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات برقرار ہیں، مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ علاقے میں امن برقرار رکھنے کے لیے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے دستے فراہم کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ گرینڈ جرگے کے ارکان امن قائم ہونے تک علاقے میں موجود رہیں گے اور صوبائی حکومت انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعلیٰ کے بقول: ’جو لوگ کرم میں امن کو خراب کر رہے ہیں، ان کی شناخت مقامی کمیونٹی کو کرنی چاہیے۔ متحارب دھڑوں کے درمیان نفرت کی فضا کو ختم کرنے کے لیے مقامی عمائدین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
ایک روز قبل کرم سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ حمید حسین نے عرب نیوز کو تصدیق کی تھی کہ صوبائی حکام کی جانب سے اعلان کردہ جنگ بندی ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں جاری جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 124 تک پہنچ گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ متاثرہ ضلع کے رہائشیوں سے بھاری ہتھیار جمع کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی باوقار واپسی کو یقینی بنائے گی۔
ان کے بقول: ’عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی گھر واپسی کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں گے۔‘