پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے گذشتہ روز 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت اس احتجاج کو ’فائنل کال‘ قرار دے رہی ہے۔
احتجاج کا اعلان عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے عمران خان سے ملاقات کے بعد کیا ہے اور علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے جلسے کے کچھ مطالبات بھی سامنے رکھے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں عمران خان کہہ چکے ہیں کہ احتجاج میں 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے، جمہوریت اور آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی اور تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔
اپنے بیان عمران خان کا کہنا تھا کہ ’جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے تو گھروں کو واپسی نہیں ہوگی۔‘
پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہے اور ماضی قریب میں اسلام آباد کی جانب مارچ کی قیادت خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور نے کی تھی۔
احتجاج کے اعلان کے بعد علی امین گنڈاپور نے گذشتہ روز ایک تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’احتجاج کے لیے ہماری تیاری پہلے سے مکمل تھی اور مطالبات کے ماننے تک واپسی نہیں ہوگی۔‘
شیر علی آفریدی ضلع خیبر سے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مظاہرے کو ہم آخری کال اس لیے کہ رہے ہیں کیونکہ اس کے بعد واپسی نہیں ہوگی۔
شیر علی کے مطابق: ’اسلام آباد کے ڈی چوک ہم جائیں گے اور تب تک بیٹھیں گے جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے 115 حلقے ہیں اور ہر ایک حلقے سے ایک ہزار کارکنان کو لے جانے کا ہمارا منصوبہ ہے اور اس کے لیے تیاری پہلے سے کر چکے ہیں۔‘
شیر علی آفریدی نے بتایا کہ عمران خان نے جو مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے، تو وہ مذاکرات کرے گی اور یہی کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ کتنے دن اور کب تک اسلام آباد میں بیٹھنا ہے۔
اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان اور تاریخ پر پی ٹی آئی میں اختلافات کے حوالے سے شیر علی نے بتایا کہ ’ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور ہم تو ہر مہینے احتجاج کرتے ہیں اور تیار رہتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’24 نومبر میں ابھی دن باقی ہیں، اگر ایک ہفتہ پہلے بھی اعلان کیا جاتا تو ہم تیار ہوتے کیونکہ ہمارے ورکرز چارجڈ ورکر ہیں۔‘
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ہیں اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنیادی طور پر پی ٹی آئی کی ہر ایک کال آخری کال ہوتی اور اس کے پیچھے مقصد کارکنوں کو متحرک رکھنا ہوتا ہے۔
لحاظ علی نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی کی یہ حکمت عملی ہے کہ وہ اس سے کارکنان کو چارج رکھیں اور اس مرتبہ علی امین گنڈاپور کے بجائے اعلان علیمہ خان کے ذریعے کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد جانا اور وہاں غائب ہونا لگتا ہے کہ کارکنان میں مشکوک ہوگیا ہے تو اس مرتبہ اعلان علیمہ خان کے ذریعے کیا گیا ہے۔
لحاظ علی نے پی ٹی آئی کے اس مرتبہ مطالبات کے حوالے سے بتایا کہ مطالبات کو اگر دیکھیں تو عمران خان کی ٹویٹ میں مذاکراتی ٹیم کا بھی ذکر ہے اور اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت کے لیے مشکل ہوں گے کیونکہ ایک تو اس میں 26ویں آئینی ترمیم ختم کرنے کا ذکر ہے اور حکومت اس کو ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
تجزیہ کار کے مطابق: ’میری ذاتی رائے ہے کہ یہ آخری کال نہیں لگتی اور چونکہ مذاکرات کی بات بھی کی گئی ہے تو شاید مذاکرات کے دوران پی ٹی آئی بھی اپنے مظاہروں اور جلسوں پر نظر ثانی کرے۔‘