وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے 2030 تک 6.8 کھرب ڈالر درکار ہوں گے۔
پاکستان کی میزبانی میں کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس سے منگل کو خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ اس اہم کوپ29 گول میز کانفرنس میں تمام شرکا کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے اس اہم نوعیت کی کانفرنس کے لیے وقت نکالا۔
شہباز شریف گلوبل کلائمیٹ فنانس فریم ورک کے ازسرنو تعین کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد پرانے معاملے جو اب پیچیدہ ہو چکے ہیں کے حل کے لیے نئی سوچ اور راہیں تلاش کرنا ہے۔
’موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے فریم ورک پر عمل کرنا ہو گا، ترقی پذیر ممالک کو این ڈی سیز پر اپنے عوام کے لیے خدمات دینا ہوں گی۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو 2030 تک این ڈی سیز کے نصف پر عملدرآمد کے لیے 6.8 کھرب ڈالر درکار ہوں گے، ڈونرز ممالک کو اپنے ترقیاتی امداد کے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ کوپ15 میں ایک ارب ڈالر فنانسنگ کے وعدے کیے گئے تاہم اس میں صرف 160 ملین ڈالر فراہم کیے گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوا ہے اور اسے ماضی قریب میں دو بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی بحالی کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
’2022 میں پاکستان کے کل رقبے کا ایک تہائی حصہ تباہ کن سیلاب سے متاثر ہوا جس کے بعد اس کے تمام ترقیاتی اور کلائمیٹ فنڈ بنیادی ریلیف اور انسانی کاوشوں کے لیے خرچ کرنے پڑے، ترقی یافتہ ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے آگے آنا ہو گا۔‘
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فنانسنگ کے نام پر قرض کی فراہمی کی بجائے غیر قرضہ جاتی حل پر توجہ مرکوز کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘
وزیراعظم نے تجویز دی کہ یو این ایف سی سی سی، آئی ڈی سیز کے ہر 15 روز بعد جائزے کے لیے کمیٹی تشکیل دے۔