22 ستمبر 2024 کو سوات کے علاقے مالم جبہ جانے والے سفارت کاروں کے سکیورٹی قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں پولیس کے مطابق ایک اہلکار جان سے گیا اور چار زخمی ہوئے، تاہم 12 ممالک کے تمام سفیر محفوظ رہے تھے۔
اس حملے کے چار دن بعد یعنی 26 ستمبر کو پولیس آفیسر عرفان اللہ کو ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) مالاکنڈ مقرر کیا گیا۔ آر پی او پاکستان میں ایک اہم عہدہ ہوتا ہے جو اس علاقے میں پولیس فورس کا انتظام چلاتا ہے اور جسے انتظامی اور مالی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
آرپی او مالاکنڈ عرفان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس واقعے کے باعث مالاکنڈ عالمی میڈیا کی شہہ سرخیوں میں تھا۔‘
فورس میں قیادت کا اعتماد اور مثبت نتائج کی توقعات بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’آئی جی خیبر پختونخوا نے اگر مجھے مالاکنڈ بھیجا تو کچھ توقعات کے ساتھ بھیجا تھا اور مجھے ہر لمحے اس کا احساس تھا۔ میرا ماننا تھا کہ اگر مالم جبہ میں واقعہ ہوا ہے تو ذمہ داروں کو یہیں کہیں ان پہاڑوں میں ہونا چاہیے تھام اس لیے پاکستانی فوج کی جانب سے دی گئی تھرمل نائٹ وژن گن (حدت کے ذریعے دیکھنے والی بندوق) لے کر رات رات بھر میرے جوان ان پہاڑوں کو چھان رہے تھے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شعبہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) مالاکنڈ کی ٹیم بھی اپنے ریکارڈ کنگھال رہی تھی کہ مالم جبہ میں کس نے اور کیسے سفارت کاروں کے قافلے کی سکیورٹی وین کو نشانہ بنایا۔ اس سے قبل اسی سال 26 مارچ کو مالاکنڈ کے ضلع شانگلہ میں بشام کے مقام پر چینی انجینیئرز کے قافلے کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں پانچ چینی شہریوں کی موت ہوئی تھی۔
سی ٹی ڈی مالاکنڈ کے ایک اہلکار نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام نہ ظاہر کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمیں یہاں تک تو لیڈ مل چکی تھی کہ جو گروہ بھی یہ کر رہا ہے، اس کے ماسٹر مائنڈ شمالی افغان صوبے کنڑ میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ہی اراکین ہیں۔ ہم نے یہاں تک معلوم کر لیا تھا کہ کنڑ میں سین کڑے کے نام سے مالاکنڈ کے عسکریت پسند ’باچا مرکز‘ نامی جگہ پر تربیت پا رہے ہیں، لیکن یہاں پہنچ کر وہ کہاں چھپ کر بیٹھے وار کر رہے ہیں، یہ معلوم کرنا باقی تھا۔‘
آر پی او مالاکنڈ عرفان اللہ نے آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ علاقے میں موجود اپنی ٹیم کو ہدایات دیں کہ پہاڑوں پر کوئی بھی معمولی سے معمولی مشکوک حرکت نظر آئے تو فوراً ان کو اطلاع دی جائے۔ سوات کے ان طویل پہاڑی سلسلوں پر نظر رکھنے کے لیے ظاہری بات ہے کہ وسائل درکار ہیں، اس لیے عرفان اللہ نے یقین دلایا کہ انہیں ان پہاڑوں کی نگرانی کے لیے جو کچھ بھی چاہیے وہ ان کو فراہم کریں گے۔ خوراک سے لے کر تھرمل نائٹ وژن اور ہر قسم کے اسلحے کی فراہمی تک وہ 24 گھنٹے ان سے رابطے میں رہیں گے۔
عرفان اللہ نے بتایا: ’جس طرح شام کو جانور پانی پینے کے لیے نیچے ندی تک آتے ہیں، میرا یہ ماننا تھا کہ یہ اگر کہیں بہت دور چوٹیوں پر موجود غاروں میں بھی ہوں گے تو کبھی نہ کبھی تو اتریں گے، اس لیے شام کے بعد شاید قسمت ہمارا زیادہ ساتھ دے۔ میرا کام یہ تھا کہ صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد انفارمیشن ٹیموں کی کوآرڈینیشن اور رات گئے تک مانیٹرنگ کے لیے دفتر میں ہی موجود رہتا۔‘
تعیناتی کے ایک ہفتے بعد چار اکتوبر کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے۔ پہاڑی علاقوں میں سورج قدرے جلد غروب ہو جاتا ہے، اس لیے چھ بجے اندھیرا ہوا چلا تھا۔ ٹھیک چھ بج کر 30 منٹ پر ان کےموبائل فون کی گھنٹی بجی۔ فون کے دوسری طرف موجود پولیس اہلکار کو تھرمل نائٹ وژن سے پہاڑ کی ایک چوٹی پر رات کی تاریکی میں ایک مشکوک شخص صاف نظر آ رہا تھا۔ اس نے سر پر کچھ پہنا ہوا تھا لیکن اس کے ہاتھ میں جدید اسلحے نے اہلکار کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ تب اس نے آر پی او کو اس صورت حال سے آگاہ کیا۔
آ رپی او کا ذہن کڑیاں ملانے لگا۔ اتنے جدید اسلحے کے ساتھ پہاڑوں کی ان چوٹیوں، ان جنگلوں میں جہاں آبادی نہیں، یہ مشکوک شخص رات کی تاریکی میں کیا کر رہا ہے؟ پھر یاد آیا کہ سی ٹی ڈی عسکریت پسندوں کے جن ممکنہ روٹس اور ٹھکانوں پر کام کر رہی تھی، یہ بھی ان میں سے ایک ممکنہ ٹھکانہ تھا، لیکن اگر غلطی ہوگئی تو؟؟ عرفان اللہ نے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ شخص بچ گیا اور کل پھر کوئی واقعہ ہوا تو؟
یہی وہ موقعہ تھا کہ جہاں ان کی چھٹی حس نے فیصلے میں مدد دی۔ ’مارگرا دو،‘ آر پی او مالاکنڈ نے سنائپر کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔
چند لمحے بعد پولیس اہلکاروں اور حساس اداروں کی ٹیم نے اسی جگہ سرچ آپریشن شروع کیا۔ جیسے ہی وہ جائے وقوعہ کے قریب پہنچے، ایک غار سے ان پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ ہینڈ گرینڈ کا استعمال بھی ہوا۔ تب صبح کی پہلی کرنیں پھوٹ چکی تھیں۔ بالآخر معلوم ہوا کہ غار کے اندر مزاحمت کرنے والا دوسرا عسکریت پسند بھی مارا جا چکا ہے۔
عرفان اللہ نے بتایا: ’ساری رات آپریشن کی نگرانی کرتے اور اپنے جوانوں کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لمحات یقیناً اعصاب شکن تھے۔ بسا اوقات جوان سمجھتے ہیں کہ آپریشن ختم ہوگیا اور جاتے جاتے عسکریت پسند بڑا اور کاری زخم دے جاتے ہیں۔ مجھے اس کا ڈر تھا، لیکن وہ خوشی بہت بڑی تھی جب میرے جوان نے کہا کہ سنائپر سے مرنے والا کمانڈر مہران ہے اور دوسرے کی شناخت علی محمد عرف خالد کے نام سے ہوئی۔‘
کمانڈر مہران کون تھا؟
سی ٹی ڈی مالاکنڈ کے ذرائع کے مطابق کمانڈر مہران کا اصل نام عطا اللہ تھا۔ وہ سوات کے علاقے چار باغ سے تعلق رکھتے تھے، جو ماضی میں تحریک طالبان سوات کے عسکریت پسند کمانڈروں کا گڑھ تھا اور انہوں نے صرف پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔
ان کے چار بھائی اور پانچ بہنیں تھیں۔ 2009 میں لگ بھگ نو برس کی عمر میں وہ اپنے بڑے بھائی فضل محمد اور دو دیگر بھائیوں احسان اللہ اور شفیع اللہ کے ہمراہ سوات آپریشن سے بھاگنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ فرار ہو کر افغان صوبہ کنڑ پہنچے تھے۔ بعد ازاں وہاں انہوں نے خودکش جیکٹ، بارودی مواد کی تیاری و تنصیب اور بارودی سرنگوں کے حوالے سے تربیت حاصل کی۔
پولیس کے مطابق 2017 میں انہوں نے سوات کی تحصیل بابوزئی میں جمشید باچا کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کے بعد 2019 سے وہ ہر سال افغانستان سے تخریبی کارروائیوں کے لیے سالانہ تشکیلات کے لیے آتے رہے۔
حساس اداروں کی جانب سے سی ٹی ڈی کو رپورٹ دی گئی کہ بشام میں چینی انجینیئرز پر ہونے والے خودکش حملے کے لیے بارودی مواد کی تیاری اور تنصیب میں عطا اللہ المعروف مہران کمانڈر کے شاگرد شامل تھے۔ اس نتیجے پر پہنچنے کی وجہ بشام حملے اور بعد ازاں سفارت کاروں کے قافلے پر حملے میں استعمال ہونے والے مواد میں کافی مماثلت تھی۔
آر پی او مالاکنڈ عرفان اللہ کے مطابق: ’میرے اور میرے جوان کے بیچ وہ ایک لمحہ اہم تھا۔ ایک لمحہ کہ جس میں کمانڈ نکلی اور سپاہی نے گولی چلا دی۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم تیار تھے۔ ہم تلاش میں تھے، لیکن مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ نائٹ وژن تھرمل گن سے جو مشکوک شخص نظر آرہا ہے وہ کمانڈر مہران ہوگا۔ سی ٹی ڈی ٹیم افغانستان کے صوبہ کنڑ تک اس کے پیچھے پہنچ چکی تھی، اس لیے جب جوان نے حیرت سے چلا کر کہا کہ یہ تو کمانڈر مہران ہے تو مجھے خود یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک ہفتے سے بھی کم کی مدت میں اتنا بڑا شکار یقیناً مالاکنڈ پولیس فورس اور ہمارے حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔‘
عسکریت پسندوں کے بچ جانے سے متعلق آر پی او کا یہ خدشہ بھی صحیح ثابت ہوا کیونکہ سرچ آپریشن میں حساس اداروں کو جائے وقوعہ سے ایک اور بارودی سرنگ ملی، جسے غالباً جلد ہی کسی حملے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
مارے جانے کے بعد پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے بیان کے مطابق عسکریت پسندی کے واقعات کا ’سرغنہ‘ عطا اللہ عرف مہران علاقے میں ’دہشت گردی‘ کی متعدد سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ غیر ملکی معززین کے قافلے کو لے جانے والی پولیس گاڑی پر دیسی ساختہ بم کے دھماکے کا واقعہ بھی ان میں شامل ہے۔