بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے مشرق وسطیٰ میں کئی ماہ سے جاری کشیدگی ختم کرنے کے لیے جمعے کو کوششیں شروع کر دی ہیں اور قطر سے یہ بھی کہا ہے کہ حماس کے عہدیداروں کو ملک بدر کیا جائے۔
العربیہ نیوز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ سفارت کار سمیت علاقائی حکام سے بات چیت کی۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ بلنکن نے شہزادہ فیصل سے غزہ اور لبنان میں تنازعات کے خاتمے کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اعادہ کیا۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میٹ ملر نے کہا، ’انہوں نے وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت کی کہ ایسا طریقہ یا حکمت عملی کیسے وضع کی جائے جس سے قیدیوں کی رہائی، غزہ میں فلسطینیوں کو اپنی زندگیوں کو دوبارہ استوار کرنے، حکومتی امور کو بہتر بنانے، سکیورٹی کو مضبوط کرنے اور تعمیر نو کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے۔‘
اینٹنی بلنکن نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو بھی چاہیے کہ غزہ میں مزید انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔
ایک اور تنازعہ، جس پر کم بحث کی جاتی ہے، سوڈان میں ہے۔ ملر نے کہا کہ اینٹنی بلنکن نے فائر بندی کے لیے علاقائی کوششوں میں ریاض کی مسلسل قیادت پر شہزادہ فیصل کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے علاوہ، اینٹنی بلنکن اور متحدہ عرب امارات کے شیخ عبداللہ بن زید نے ان کوششوں پر بات چیت کی جو غزہ میں فلسطینیوں کو اپنی زندگیوں کی بحالی اور حکمرانی، سکیورٹی، اور تعمیر نو کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے راستہ فراہم کریں۔
ملر نے کہا: ’انہوں نے لبنان میں سفارتی حل کی کوششوں پر بھی بات کی، جس کے ذریعے بلیو لائن یعنی لبنان اور اسرائیل کے درمیان اقوام متحدہ کی قائم کردہ سرحدی حد کے دونوں اطراف کے شہری اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دریں اثنا اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی جانب سے یوو گیلنٹ کو برطرف کیے جانے کے بعد پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے اسرائیل کے نئے وزیر دفاع سے پہلی بار بات چیت کی ہے۔
لائیڈ آسٹن نے اپنے نئے ہم منصب اسرائیل کاٹز کو بتایا کہ امریکہ لبنان میں ایک سفارتی حل کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت اسرائیلی اور لبنانی شہری سرحد کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔
پینٹاگون کے بقول لائیڈ آسٹن نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں سنگین انسانی حالات کو بہتر بنائے۔
اعلیٰ امریکی فوجی جنرل نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سے علاقائی کشیدگی کم کرنے کی ضرورت کے بارے میں بات کی۔
جوائنٹ سٹاف کے ترجمان جیریل ڈورسی نے کہا کہ ’امریکہ سیز فائر اور قیدیوں کی واپسی کے لیے معاہدے کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کی وکالت جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
امریکہ کا قطر سے حماس کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ
ایک نئی پیش رفت میں بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر حکام نے عوامی سطح پر قطر سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ حماس کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا بند کرے۔
سینیئر سفارتی ذرائع نے العربیہ انگریزی کو تصدیق کی کہ دوحہ نے دس دن قبل حماس کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا تھا کیونکہ انہوں نے غزہ میں سیزفائر کے کسی بھی معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ درخواست امریکی مطالبات یا درخواستوں کی وجہ سے نہیں تھی۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے جمعے کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’قیدیوں کی رہائی کی تجاویز کو بار بار مسترد کرنے کے بعد، اس کے رہنماؤں کو اب کسی بھی امریکی شراکت دار کے دارالحکومتوں میں خوش آمدید نہیں کہا جانا چاہیے۔
’ہم نے قطر پر یہ بات اس وقت واضح کر دی تھی جب حماس نے چند ہفتے قبل قیدیوں کی رہائی کی ایک اور تجویز مسترد کی تھی۔‘
رپبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ نے جمعے کو بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قطر پر دباؤ ڈالے کہ وہ دوحہ میں مقیم حماس کے عہدیداروں کے اثاثے منجمد کرے، حماس کے سینیئر رہنماؤں خالد مشعل اور خلیل الحیا کی حوالگی کرے اور حماس کی سینئر قیادت کی مہمان نوازی ختم کرے۔
سینیٹرز نے لکھا کہ ’حماس کو شکست دینا ممکن ہے اور اس کی قیادت کو بیرون ملک محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ اسے شکست دینے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔‘
قطر نے 2012 میں حماس رہنماؤں کی میزبانی کا آغاز واشنگٹن کی درخواست پر کیا تھا تاکہ غزہ پر حکومت کرنے والے گروپ کے ساتھ رابطے کے ذرائع کھلے رکھے جا سکیں۔