پاکستان اور دیگر ممالک میں دہری شہریت کے قوانین کیا ہیں؟

پاکستان اور دیگر ممالک میں دہری شہریت کے قوانین کیا ہیں؟

پاکستان کے قانون میں دہری شہریت کی اجازت کچھ ممالک کے ساتھ معاہدے کے تحت موجود تو ہے لیکن اس کا اطلاق اراکین پارلیمنٹ، افواج پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر نہیں ہوتا۔

دہری شہریت کے قانون کے مطابق سیاست دان تب تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے جب تک وہ دوسرے ملک کی شہریت ترک نہ کر دیں، لیکن عدالت میں جمع کرائے گئے ریکارڈ کے مطابق گریڈ 17 سے 22 تک کے سرکاری ملازمین جو دہری شہریت رکھتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

دہری شہریت سے مراد کسی بھی ریاست کے شہری کی وہ حیثیت جس میں ایک شخص ایک کے بجائے دو مختلف ممالک کی شہریت کے حامل ہوں۔

پاکستانی شہریوں کے کوائف جمع کرنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کا دنیا کے 21 ممالک کے ساتھ دہری شہریت پر معاہدہ ہے۔

ان ممالک میں امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس، آسٹریلیا، سویڈن، آئرلینڈ، شام، بحرین، آئرلینڈ، نیدرلینڈز، ڈنمارک، ناروے، مصر، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، بیلجیم، آئس لینڈ اور جرمنی شامل ہیں۔

جرمنی کے علاوہ باقی ممالک پاکستان کے شہری کو جب شہریت دیتے ہیں تو اس کو اپنے ملک میں الیکشن لڑنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ دہری شہریت کا پہلا معاہدہ برطانیہ کے ساتھ 1972 میں ہوا تھا جبکہ امریکہ کے ساتھ دہری شہریت کا معاہدہ 2002 میں ہوا۔

پاکستان کاقانون دہری شہریت کے معاملے پر کیا کہتا ہے؟

پاکستان کا قانون برائے شہریت 13 اپریل 1951 میں نافذالعمل ہوا تھا۔

شہریت کے اس قانون میں کئی بار تبدیلیاں ہوئیں جبکہ آخری ترمیم سنہ 2000 میں کی گئی تھی۔

قانون برائے شہریت کی 23 شقیں ہیں اور ہر شق میں شہریت کے لیے مختلف شرائط درج ہیں۔

مختلف ادوار میں مختلف وزارتوں میں دہری شہریت کے حامل افراد کو تعینات کیا گیا جس میں شوکت عزیز کا نام بھی شامل ہے جو پہلے وزیر خزانہ اور اس کے بعد وزیر اعظم پاکستان بھی رہے۔

پہلی بار آئین کا آرٹیکل 63 (شق1) سی کا اطلاق سپریم کورٹ نے سال 2012 میں فرح ناز اصفہانی پر کرتے ہوئے ان کی رکنیت معطل کی تھی۔

جس کے بعد سے رکن پارلیمنٹ کے لیے دہری شہریت کے قانون کا باقاعدہ اطلاق ہوا۔

سال 2012 سے الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی میں ایک نکتہ شامل کیا ہے جس کے تحت آئندہ پارلیمان کی رکنیت کے ہر امیدوار پر لازم ہوگا کہ وہ بیان حلفی دائر کریں کہ وہ پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں رکھتے۔

پاکستان میں دہری شہریت کب موضوع بحث بنی؟

پاکستان میں دہری شہریت کے خلاف ملک میں آوازوں نے اس وقت زور پکڑا جب 2013 میں کینیڈیں شہریت رکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے لانگ مارچ کر کے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومتی ارکان اور مخالف سیاست دانوں نے ڈاکٹر قادری کے اس مطالبے کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ طاہر القادری نے تو ملکہ سے وفاداری کاحلف اٹھا رکھا ہے وہ پاکستان سے وفا داری کیسے نبھا سکتا ہے۔

طاہر القادری نے لانگ مارچ کے بعد سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا لیکن سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے بھی دہری شہریت کو جواز بنایا اور ریمارکس دیے کہ آپ کو آئینی حق ہی نہیں کہ آپ سپریم کورٹ میں کسی ادارے کے خلاف پٹیشن دائر کریں۔

سرکاری ملازمین کی دہری شہریت پر سپریم کورٹ نے 2018 میں نوٹس لیا تھا۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لیتے ہوئے پانچوں ہائی کورٹس کے رجسٹرارز، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ ضلعی عدالتوں میں کام کرنے والے ججز کی دہری شہریت بارے میں 15 دن کے اندر معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق گریڈ 17سے گریڈ 22 تک دہری شہریت کے حامل سرکاری ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے اور یہ سرکاری ملازمین زیادہ تر امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں۔ ان میں ہائی کورٹ کے ججوں کے نام بھی شامل تھے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی جن میں ایک ہزار افراد کے ناموں پر مشتمل فہرست بھی شامل تھی۔

ان میں سے 719 افراد نے اپنی دہری شہریت کو ظاہر کر رکھا تھا تاہم باقی افراد نے دہری شہریت کو خفیہ رکھا۔

سپریم کورٹ نے دسمبر 2018 میں دہری شہریت کیس کے فیصلے میں قرار دیا کہ دہری شہریت رکھنے والے افراد کو اعلیٰ عہدے نہ دیں ’دہری شہریت کے حامل افراد کو ملازمت نہیں دی جاسکتی کیوں کہ وہ ریاست کے مفاد کے لیے خطرہ ہیں۔‘

ستمبر 2022 میں پبلک اکاونٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ بعض سرکاری افسران ریٹائر ہونے سے قبل پاکستان کی شہریت چھوڑ کر بیرون ملک روانہ ہو جاتے ہیں، جبکہ اس وقت پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے 500 افسران دہری شہریت کے حامل ہیں۔

عدلیہ کے لیے آئین میں دہری شہریت کی کیا شق ہے؟

پاکستانی آئین کے آرٹیکل 177 کی ذیلی شق (2) کے مطابق کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک وہ پاکستان کا شہری نہ ہو۔ جبکہ آئین  کی آرٹیکل 193 کی ذیلی شق (2) کے مطابق کوئی شخص کسی عدالتِ عالیہ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو۔ لیکن اس میں مستقل رہائشی سرٹفکیٹ کے بارے میں کچھ درج نہیں ہے۔ اس حوالے سے آئین خاموش ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ رکھنے سے متعلق معلومات سامنے آئی ہیں کہ وہ 2005 میں امریکہ میں بسلسلہ تعلیم مقیم رہے اور پریکٹس بھی کی۔

اس دوران وہاں پراپرٹی بھی لی اور گرین کارڈ جس کو مستقل رہائشی سرٹفیکیٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔

میسر معلومات کے مطابق گرین کارڈ شہریت سے پہلے والا درجہ ہے۔ گرین کارڈ کے بعد کچھ عرصہ امریکہ میں گزارنے کے بعد امریکی شہریت کے لیے اپلائی کیا جا سکتا ہے۔

کیا سرکاری افسران کے پاس دہری شہریت ہونی چاہیے؟

سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سرکاری عہدوں میں صرف اپنے ملک سے وفاداری کا حلف ہونا چاہیے اس لیے اراکین پارلیمنٹ، افواج پاکستان اور ججوں کی تعیناتی میں صرف پاکستان شہریت کا ہونا ضروری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک ججوں کی بات ہے تو ججوں کی تعیناتی میں یہ قانون ہے کہ جج پاکستانی شہریت رکھتے ہوں دہری شہریت نہ ہو، لیکن اگر کسی اور ملک کا گرین کارڈ یا رہائشی سرٹفیکیٹ کسی کے بھی پاس ہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں کیوں کہ اس پر آئین خاموش ہے۔

’گرین کارڈ کو شہریت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس بات پہ جج کی تعیناتی پر کوئی قدغن نہیں ہے۔‘

دیگر ممالک میں سرکای عہدے داروں کے لیے دہری شہریت کا کیا قانون ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق دنیا کے متعدد ممالک میں دہری شہریت کی اجازت ہے۔

امریکہ برطانیہ سمیت دیگر ممالک جہاں دہری شہریت کی اجازت ہے وہاں سرکاری عہدوں سمیت انتخابات لڑنے کی بھی اجازت ہے جبکہ متعدد ممالک میں دہری شہریت کو بالکل تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔

ایسے ممالک میں شہریت حاصل کرنے کے لیے پہلی شہریت کو چھوڑنا لازمی ہے اور شہریت حاصل کرنے کے بعد اس ملک کے شہری کی طرح تمام حقوق کے اہل ہیں۔

اٹلی اور پرتگال میں دہری شہریت سے متعلق قوانین نرم ہیں۔ جبکہ جرمنی میں اس حوالے سے سخت قوانین ہیں۔

جرمنی میں شہریت حاصل کرنا اور پھر دہری شہریت رکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن گذشتہ برس اگست میں برلن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نینسی فیزر نے بتایا تھا کہ ’جرمن حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کرا دیا، جس کا مقصد جرمنی کی شہریت حاصل کرنے کے عمل کو آسان بنانا ہے۔ نئے قانون کے تحت اصولی طور پر دہری شہریت رکھنا بھی ممکن ہو جائے گا۔‘

اسی طرح اجنٹائن کے قوانین میں دہری شہریت کی اجازت ہے لیکن یہ اجازت صرف اٹلی اور سپین کے شہریوں کے لیے ہے، کسی اور شہریت کے حامل افراد اگر ارجنٹائن کی شہریت حاصل کرنا چاہیں گے تو انہیں اپنی پہلی شہریت چھوڑنا ہو گی۔

آسٹریا کے قوانین بھی سخت ہیں، وہاں بھی دہری شہریت کی اجازت نہیں۔

10 سال تک وہاں رہائش پذیر ہونے کے بعد پہلی شہریت ترک کرنے کی شرط پر آسٹریا کی شہریت حاصل ہو سکتی ہے جس کے بعد بطور شہری سرکاری عہدوں سمیت تمام حقوق کے اہل قرار ہاتے ہیں۔

انڈیا ایران اور افغانستان سمیت 30 ممالک ایسے ہیں جہاں دہری شہریت کے قوانین کی گنجائش ہی نہیں ہے۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں