ہمیں لوگوں کا صرف وہ چہرہ یاد رہتا ہے جو ہم نے آخری بار دیکھا تھا۔
یہ بہت عجیب سی بات ہے۔ چہرے کی ٹائم لائن ہمیں کیوں نہیں یاد رہتی؟
آپ بچپن میں کیسے دکھتے تھے، نوجوانی میں آپ کی شکل کیسی تھی، نوجوان ہو کر آپ کے نقش کیا تھے، عین عالم شباب میں آپ کیسے نظر آئے اور پھر عمر ڈھلنے پر کیا تبدیلیاں آئیں، یہ سب کچھ عام طور پہ تصویروں کے ذریعے دیکھ کر یاد کیا جا سکتا ہے۔ ماں باپ تک کو جو شکل آپ کی یاد ہوتی ہے، وہ ہمیشہ وہی ہو گی جو انہوں نے آخری بار دیکھی تھی۔
یاد کریں، دماغ پہ زور ڈالیں، کوئی دوست جو باہر چلا گیا ہو اور 10 سال بعد آپ کو ملا ہو تو آپ حیران ہوئے ہوں گے کہ یاررر! کیا شکل بنا لی تم نے؟
اب حیرانی ہو گئی، ملاقات بھی ہو گئی، دو تین دن مل لیے تو آپ کے دماغ نے اگلی شکل، موجودہ والی، نقش کر لی۔
یہ ایسا ہے جیسے وقت آپ کے دماغ میں رک گیا۔
جنہیں ہم روز ملتے ہیں ان کی شکل ہمارے سامنے بدل رہی ہوتی ہے، ہمیں ٹکے برابر احساس نہیں ہوتا لیکن جو دور ہوتے ہیں، جنہیں ہم نہیں دیکھ پاتے، ان کی شکل فریز ہو جاتی ہے دماغ میں۔
اب سوچیں کہ اگر کسی ٹیکنیکل وجہ سے آئینہ ہمارے پاس نہ ہو، تو ہمارے دماغ میں اپنی شکل کیا ہو گی؟ کیا آپ کو اپنا چہرہ، بغیر آئینے کے یا سیلفی کیمرے میں دیکھے بغیر، ایک ایک نقش یاد ہے؟َ
میں آنکھیں بند کرتا ہوں اور سوچتا ہوں تو مجھے اپنے چہرے سے زیادہ اپنے جسم کی یادداشت موجود دکھائی دیتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ چہرہ دن میں ایک دو بار دیکھا جاتا ہے آئینے میں، جب کہ جسم کے مختلف حصے 24 گھنٹے سامنے ہوتے ہیں۔
آئینے کا بھی عجیب الگ کیس ہے۔ یہ بھی ہمیں موجودہ چہرہ نہیں دکھا رہا ہوتا۔
جو عکس ہم لوگ اپنا دیکھتے ہیں وہ ماضی کا ہوتا ہے۔ اندھیرے میں ہمیں اپنا چہرہ نہیں دکھائی دے گا۔ آئینہ دیکھنے کو بہرحال روشنی چاہیے۔
روشنی کی ایک رفتار ہوتی ہے، بہت تیز سہی لیکن ہوتی ہے، ناپی جا چکی ہے۔ آئینہ بنیادی طور پہ روشنی کو منعکس کر کے ہماری طرف پھینک رہا ہوتا ہے، وہ روشنی جب ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے تو جتنی دیر میں اس نے آئینے سے ہماری آنکھوں تک کا فاصلہ طے کیا، سمجھ لیں آئینے میں ہمارا چہرہ، جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں، وہ اتنے نینو سیکنڈ پرانا ہوتا ہے۔
نینو سیکنڈ سے مراد سمجھ لیں ایک سیکنڈ کا اربواں حصہ ۔۔۔ لیکن ہوتا تو وہ ماضی ہی ہے، کہ نہیں؟
یعنی خود اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے انسان محتاج ہے ایک آئینے کا، عکس کا، تصویر کا ۔۔۔ اور جو دیکھتا ہے تو بھی ماضی کی شکل ۔۔۔ یہ کیسی ظلم والی بات ہے؟
تو خیر، ہمارا موجودہ چہرہ ہم نہیں جانتے۔ یہ ایک بات ہو گئی۔
اب فرض کر لیں کہ اگر تین سال تک آپ کو آئینہ نہ ملے، تو اس عرصے کے بعد آپ کے دماغ میں اپنی شکل کیا ہو گی؟ وہی جو تین سال پہلے تھی؟ یعنی وقت آپ کے لیے بھی رک گیا۔
وقت گزر بھی رہا ہے اور کوئی ایک وقت جو ہے وہ کسی کونے میں رکا ہوا بھی ہے یا پھر وقت سرے سے لکیر ہے ہی نہیں، بس گھومتے جانے والا دائرہ ہے جس کے اندر ہم سب بند ہیں؟
اگر ہم سب بند ہیں، یا کسی کونے میں ایک وقت ہماری یاد کا، ہمارے چہرے کا، ہمارے ماضی کا، رُکا ہوا کبھی ہونا ہے، تو اسے کیسا ہونا چاہیے؟ اور جب ہم اپنا اصل چہرہ جانتے بھی نہیں؟
سوچنے کی اصل بات شاید یہی ہے۔
وقت ہمیشہ گزرتا نہیں جاتا، چہرے ہمیشہ بدلتے نہیں رہتے، کبھی کبھی یہ رُک بھی جاتے ہیں، نقش ہو جاتے ہیں، گڑ جاتے ہیں ایک جگہ، اور انسان ۔۔۔ انسان پھر خود کو آگے دھکیلنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو سوال یہ تھا کہ جب وقت رک جائے اس لمحے آپ اپنا کون سا والا چہرہ یاد رکھوانا چاہتے ہیں؟
مہربانی والا چہرہ یاد ہے آپ کو؟ کسی بزرگ کا شفیق مجسم چہرہ؟
کوئی مسکراتا چہرہ یاد ہو گا، جسے دیکھ کے خوشگوار احساس ہوتا ہو؟
غیظ و غضب والے، پھنکارتے ہوئے، ناک منہ سے شعلے نکالتے بھی کئی چہرے آپ کو یاد ہوں گے؟
کسی چہرے پہ بے زاری یاد ہو گی، کوئی لاتعلق چہرہ ہو گا، کوئی کٹھور سنگدل قسم کا ہو گا، کسی چہرے پہ آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی دماغ میں کہیں گڑی ہوں گی ۔۔۔ تو کون سا چہرہ؟
ہر بار ملنے کو اگر رکا ہوا وقت سمجھا جائے، آخری ملاقات سمجھا جائے اور ہر موجود لمحے کی اگر شکرگزاری کی حد تک قدر کر لی جائے تو میرا خیال ہے آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔
آپ ۔۔۔ اپنا کون سا والا چہرہ یاد رکھوانا چاہتے ہیں؟
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔