کہیں ایسا نہ ہو  کہ پھر پچھتاوا ہو

کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر پچھتاوا ہو

یوکے اردو نیوز،16جولائی: ابوفہد کا تعلق سعودی دارالحکومت ریاض سے ہے۔ صوم و صلوٰة کا پابند باشرع آدمی ہے۔ اس کی عمر اس وقت پچاس سال تھی جب اس نے نیا گھر بنایا اور اپنے دوستوں کو گھر بنانے کی خوشی میں دعوت دی۔

تمام عزیز و اقارب اور دوست احباب مجلس میں بیٹھے تھے۔ ابو فہد آیا اور اس کے ساتھ اس کے تین چھوٹے چھوٹے بیٹے محمد، انس اور معاذ بھی داخل ہوئے۔ وہ تینوں ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔

ابو فہد نے مہمانوں کو قہوہ پلانا شروع کیا۔ مجلس میں موجود ایک شخص جو اس واقعہ کا راوی ہے، وہ بیان کرتا ہے کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ ابو فہد عمر میں ہم سے کہیں بڑا ہے اور یہ بذات خود ہمیں قہوہ پیش کر رہا ہے۔

میں آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے تھرماس پکڑ لی مگر اس نے قسم دے کر مجھے بٹھا دیا۔ میری زبان سے نکل گیا: فہد کدھر ہے؟ ہمیں قہوہ وہ پیش کرتا تو بہتر تھا۔ وہ بھی مردوں میں بیٹھتا، اپنے والد کی مدد کرتا۔ میرے اپنے خیال میں فہد ہی اس کا سب سے بڑا بیٹا تھا، اسی لیے تو اس نے اپنی کنیت ابو فہد رکھی ہوئی تھی۔

میرے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ مجلس پر سناٹا چھا گیا۔ بعض لوگوں نے مارے غم کے اپنے منہ چھپا لیے۔ میں نے دیکھا کہ ابو فہد کے چہرے پر غم و الم کے بادل چھا گئے ہیں۔ وہ اٹھ کر اندر چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد مجھے خود پر افسوس ہوا کہ فہد کی وفات کی خبر مجھے کیوں نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد ابو فہد مجلس میں واپس آیا تو معلوم ہو رہا تھا کہ وہ گھر میں خوب رو کر آیا ہے۔ مجھے اپنے الفاظ پر خاصی خجالت اور شرمندگی ہو رہی تھی۔ میں نے طے کیا کہ میں مجلس میں آخر تک بیٹھا رہوں گا اور ابو فہد سے معذرت کر کے ہی جاؤں گا۔

جب سارے لوگ چلے گئے تو میں نے ابو فہد سے کہا: بھائی! مجھے معاف کر دو۔ مجھے معلوم نہ تھاکہ آپ کا بیٹا وفات پا چکا ہے، مگر حیرت ہے کہ دس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک آپ کو فہد کی وفات کا اس قدر صدمہ ہے، جس طرح یہ واقعہ کل پیش آیا ہو۔ مسلمان ہونے کے ناطے قضاء و قدر پر ایمان تو ہمارے دین کا حصہ ہے۔

ابو فہد کہنے لگا: میرے بھائی! ایسی بات نہیں، میں بھی قضاء و قدر پر یقین رکھتا ہوں، مگر مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ فہد نے جب وفات پائی تو وہ مجھ سے ناراض تھا۔

ہم لوگ ابہا سے ریاض آ رہے تھے۔ فہد کی عمر نو دس سال تھی۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خوب چہک رہا تھا اور بار بار اپنی امی کو تنگ کر رہا تھا۔ میں نے اسے متعدد بار سمجھایا، مگر وہ باز نہ آیا، مجھے جو غصہ آیا تو میں نے اپنا عقال اتارا اور فہد کو مارنا شروع کر دیا۔ وہ رونے لگ گیا۔ میری اہلیہ بھی خاصی پریشان ہوئی۔ مجھے بھی افسوس ہوا کہ میں نے اسے کیوں مارا ہے۔
سوچا چلو ریاض جا کر اسے راضی کر لوں گا۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی ہمارا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور فہد اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا۔

ہمیں فضائی ایمبولینس کے ذریعے ریاض لے جایا گیا۔ مجھے افسوس صرف یہ ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے ناراضی کی حالت میں فوت ہو گیا۔ مجھے اسے راضی کرنے کا موقع نہ ملا۔ میں اسے وفات سے پہلے گلے نہ لگا سکا۔ تقدیر کے فیصلے ہیں کہ میں اس کے آنسو نہ پونچھ سکا۔ میں قضاء و قدر پر راضی ہوں، مگر اب بھی میرے دل میں ایک حسرت ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے اس حالت میں جدا ہوا کہ وہ مجھ سے ناراض تھا۔ وہ روتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کاش وقت دوبارہ آ جائے اور میں اپنے بیٹے کو راضی کر سکوں۔

ہمارے معاشرے میں کتنے ہی ایسے واقعات ہیں کہ ایک شخص کی ناراض والدہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اس بدقسمت کو اسے راضی کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ وہ یہی سوچتا رہا کل اپنی والدہ کو راضی کر لوں گا۔ پھر پوری زندگی اسے حسرت رہی کہ اس کی والدہ اس سے ناراض ہی چلی گئی۔ وہ یہ حسرت دل میں لیے قبر میں چلا گیا۔ ایک خاتون اپنے خاوند کو ناراض کرتی ہے۔ خاوند بیوی سے ناراض گھر سے نکلا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جب شام کو آئے گا تو راضی کر لوں گی۔ مگر وہ شام نہ آسکی اور اس کی میت گھر آئی۔ اب اسے پچھتاوا ہے کہ میں نے اپنے خاوند کو کیوں ناراض کیا۔

ایسی کتنی ہی کہانیاں اور داستانیں ہیں، کتنے حقائق ہیں کہ غصہ کی وجہ سے آشیانے تباہ و برباد ہو گئے۔ ساری زندگی کے لیے حسرت اور ندامت بن گئے۔ کیا ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم اپنے رویے میں تبدیلی لائیں اور اپنا غصہ گھٹالیں ؟ اور اگر ہم سے ہمارے پیارے ناراض ہیں تو انہیں وقت پر راضی کرلیں ، منا لیں ؟؟

اپنا تبصرہ لکھیں