لکھنے کا یہ عام سا طریقہ طلباء کے سیکھنے کا عمل بہتر بنا سکتا ہے

لکھنے کا یہ عام سا طریقہ طلباء کے سیکھنے کا عمل بہتر بنا سکتا ہے

لکھنے کا یہ عام سا طریقہ طلباء کے سیکھنے کا عمل بہتر بنا سکتا ہے

لکھنے کا یہ عام سا طریقہ طلباء کے سیکھنے کا عمل بہتر بنا سکتا ہے

جدید ٹیکنالوجی کی اس دورمیں بھی تدریس کا روایتی طریقہ زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی ہے۔

حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق طلباء اس وقت زیادہ بہتر سیکھتے ہیں جب وہ روایتی طریقے سے نوٹس لیتے ہیں، یعنی ہاتھ سے لکھتے ہیں، اوراب اس حوالے سے محققین  نے مزید معلومات حاصل کی ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

نارویجن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی  کی نیوروسائیکولوجی کی پروفیسرآڈری وین ڈیر میر کا کہنا ہے کہ جب ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو دماغ کمپیوٹر کا استعمال کرنے والوں کی نسبت زیادہ دماغی رابطے بناتا ہے اور ہاتھ سے لکھنے کی صورت میں دماغ کے زیادہ خلیے فعال ہوتے ہیں، جو ہماری سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ رواں برس امریکہ کی 20 ریاستوں نے اسکولوں میں طلباء نے دوبارہ ہاتھ سے لکھنا شروع کردیا ہے۔

وین ڈیر میرکا مزید یہ بھی کہنا ہے جب لوگ ہاتھ سے لکھتے ہیں، تو دماغ کے ان حصوں میں نمایاں طور پرزیادہ اعصابی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں جو یادداشت اور نئی معلومات کی تشریح کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، یہ سرگرمی سیکھنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

محققین نے اس تحقیق میں ایسے طلباء کا مطالعہ بھی کیا جو ٹیبلٹ کا استعمال کرتے تھے، چاہے وہ ڈیجیٹل پین کے ساتھ ہو یا ڈیجیٹل کی بورڈ کے ساتھ۔ ان کا ماننا ہے کہ اثر وہی ہوتا ہے، چاہے آپ عام قلم یا پینسل کا استعمال کریں۔ اہم بات حروف بنانے کا عمل ہے۔

“جب ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں، تو ہم زیادہ حواس کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ کی بورڈ پر ہم ہر حرف کو ٹائپ کرنے کے لیے ایک ہی سادہ انگلی کی حرکت کو دہراتے ہیں۔

2020  کی ایک تحقیق کے مطابق، 19 ممالک میں نارویجن وہ ملک ہے جہاں 9 سے 16 سال کی عمرکے بچے اوسطاً روزانہ چار گھنٹے آن لائن گزارتے ہیں، جبکہ 16 سال کے بچے روزانہ چھ گھنٹے آن لائن ہوتے ہیں۔

نارویجن ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ کا کہنا ہے کہ دو سال سے کم عمر بچوں کوہر قسم کی اسکرین سے دور رکھا جائے، جبکہ 2 سے 5 سال کی عمر کے بچوں کے لیے اسکرین ٹائم روزانہ ایک گھنٹے تک محدود کیا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ  دماغ کی نشوونما کا آغاز بہت چھوٹی سی عمر میں ہوتا ہے، لہٰذا والدین کو زیادہ سکرین ٹائم کے خطرات سے آگاہ رہنا چاہیے۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں