نئے مقرر ہونے والے ویلیو فار منی چیف، ڈیوڈ گولڈ سٹون، کا نام ایسے بڑے منصوبوں سے جڑا رہا ہے جو بجٹ سے تجاوز کر گئے ہیں، جن میں لندن اولمپکس، پارلیمنٹ کی بحالی، اور HS2 ہائی اسپیڈ ریل پروجیکٹ شامل ہیں۔ اب انہیں حکومت کے نئے آفس فار ویلیو فار منی (OfVM) کی قیادت سونپی گئی ہے، جہاں وہ چانسلر ریچل ریوز کو مشورے فراہم کریں گے کہ سرکاری اخراجات میں فضول خرچی اور ناکارگی کو کیسے کم کیا جائے۔
ڈاؤننگ سٹریٹ نے ان کی تقرری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ گولڈ سٹون ایک ’’انتہائی تجربہ کار پبلک سیکٹر لیڈر‘‘ ہیں اور ان کا ’’اعلیٰ مالیت والے پیچیدہ پروگرامز‘‘ پر کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ جب پوچھا گیا کہ کیا ان کا تقرر پیسے کی قدر کو یقینی بنائے گا، نمبر 10 کے ترجمان نے اس پر اعتماد کا اظہار کیا۔
ریچل ریوز نے بھی ان کی تقرری کو سراہا اور کہا کہ یہ کردار ’’پبلک اخراجات سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔‘‘ لیکن اس تقرری پر بعض حلقوں سے تحفظات بھی سامنے آئے ہیں۔ کلاکٹن کے ایم پی نائجل فاریج نے، جو ریفارم یوکے کے رہنما ہیں، نے نشاندہی کی کہ گولڈ سٹون نے ایسے منصوبے میں خدمات انجام دیں جس کی لاگت دوگنی ہو گئی ہے، جیسے کہ HS2۔
گولڈ سٹون نے مختلف اہم منصوبوں میں کردار ادا کیا ہے، جن میں لندن اولمپکس بھی شامل ہے، جس کا خرچ ابتدائی تخمینے سے تین گنا بڑھ کر £9 ارب تک پہنچا۔ وہ پارلیمنٹ کی بحالی کے پروجیکٹ میں بھی شامل رہے، جہاں اضافی اخراجات اور بونس کے باعث ان پر تنقید کی گئی۔
قدامت پسند رہنما کیمی بیڈینوک نے بھی اس دفتر کے قیام پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مسائل کو مزید بیوروکریسی کے ذریعے حل کرنا ہمیشہ کارآمد نہیں ہوتا‘‘ اور سول سروس کو ہی اندرونی طور پر پیسے کی قدر کو یقینی بنانا چاہیے۔
گولڈ سٹون ایک ٹیم کے ساتھ کام کریں گے جس میں 20 سرکاری ملازمین شامل ہوں گے، اور ان کا یہ عہدہ ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے ہے۔ ان کی تنخواہ فی دن £950 ہے، جو سالانہ تقریباً £50,000 بنتی ہے۔ ٹریژری نے واضح کیا ہے کہ یہ شرح مارکیٹ کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر طے کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ ڈیرن جونز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بہتری کے لیے یہ شرح موزوں ہے‘‘ اور انہوں نے کہا کہ ’’ہم لوگوں سے مفت میں کام کی توقع نہیں کر سکتے۔‘‘