میڈیا ریٹنگ لینے کے لیے عورت کو نشانہ بنا رہا ہے؟

میڈیا ریٹنگ لینے کے لیے عورت کو نشانہ بنا رہا ہے؟

آج کل ٹک ٹاکر وردہ ملک کو ایک پوڈ کاسٹ میں ریحان طارق کی جانب سے ان ہی کی ویڈیو دکھا کر فضول سوالات کرنے کی ویڈیو وائرل ہو گئی، جس پر رائے منقسم ہے۔

کوئی کہتا ہے کہ میزبان ریحان طارق معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اس لیے مہمان سے ٹیڑھے سوال کرتے ہیں کوئی اس بات پر خفا ہیں کہ انہیں ایسی حرکتیں کرنے، مہمانوں کو بےعزت کرنے سے ریٹنگ ملتی ہے۔

لیکن کیا یہ سوشل میڈیا تک محدود ہے؟ تو اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔

جس طرح سے یہ پوڈ کاسٹ ملین ویوز لے رہے ہیں، وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں دیکھنے والے اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب ہم اور آپ ہیں، ہمارا معاشرہ ہے اور اسی معاشرے میں پلنے بڑھنے والے ہر طبقے، ہر شعبے میں موجود ہیں یہاں تک کہ نیوز رومز میں بھی۔

صحافت کا شعبہ جہاں اخلاقی صحافت پر درس دینے والے خاصی تعداد میں موجود ہیں اور ان کے کام اور تجربے کو عزت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے وہ بھی کسی خاتون کی کردار کشی، وکٹم بلیمنگ کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ میں نے 2013 میں پہلی بار اس سوچ کا سامنا تب کیا، جب ایک خاتون کراچی کے علاقے خدا کی بستی سے ایک نیوز چینل کے دفتر پہنچیں اور ڈیسک نے کہا کہ میں ان خاتون کا مسئلہ سن کر آؤں کہ وہ کیوں آئی ہیں؟

میں جب ان کے پاس گئی تو ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی بچی، جس کی عمر کوئی نو دس سال ہو گی، کی تصویر تھی۔ ان خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ چار روز قبل ان کی بیٹی محلے کے دیگر بچوں کے ساتھ قرآن پڑھنے نکلی لیکن واپس نہ آئی۔ محلے والوں نے مدرسے سمیت آس پاس کے محلوں، گلیوں تک میں بچی کو تلاش کیا، وہ پولیس کے پاس بھی گئیں لیکن ان کی کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔

ان کی خواہش تھی کہ ان کی بچی کی تصویر کے ساتھ گمشدگی کی خبر کو چینل کی سکرین پر چلایا جائے تو شاید پولیس بھی ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اور ان کی بچی کے لاپتہ ہونے یا اغوا کی رپورٹ درج کر لے۔ ان خاتون کو زار و قطار روتا دیکھ کر میں نے ان سے تسلی کے کچھ بول بولے اور وعدہ کر کے اوپر آ گئی۔

ڈیسک کو سارا ماجرا بتایا اور کہا کہ ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ میرے سب سے سینیئر انچارج نے بےنیازی سے کہا: ’خود ہی گھر سے بھاگی ہو گی۔‘

اس روز مجھے غصے اور افسوس کے مارے نیند نہیں آئی۔ ایک ہفتہ گزرا تو ٹکر چل گئے کہ کراچی کے مضافات میں کسی سنسان سڑک سے ایک نو سالہ بچی کی لاش ملی ہے، جسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بچی کی لاش کی تصویر اپنے ریکارڈ کے لیے اسائمنٹ نے مانگی، جسے دیکھ کر میں نے ڈیسک کے کونے میں پڑی ایک ٹوکری جس میں پرانے اخبار رکھ دیے جاتے تھے، وہاں سے تصویر کا وہ لفافہ اٹھا کر میچ کیا، جو وہ خاتون دے کر گئی تھی تصویر دیکھی تو وہ وہی بچی تھی۔

شام میں سینیئر اسائنمنٹ ایڈیٹر کے آںے کا انتظار کیا اور جب وہ آئے تو خبر تو پرانی ہوچکی تھی لیکن میرا غصہ اب بھی تازہ تھا۔ میں نے وہی تصویر ان کے سامنے پھینکی اور بتایا کہ یہ لڑکی جو آپ کے بقول اپنے کسی عاشق کے ساتھ بھاگ گئی تھی، اس کی ریپ کی ہوئی لاش مل گئی ہے۔ ان صاحب کے چہرے پر مجھے کوئی ندامت دکھائی نہیں دی۔

یہ پہلا موقع تھا۔ اس کے بعد کئی مواقع پر میں نے نیوز روم میں ایسی خبروں میں عورتوں کی کردار کشی ہوتے دیکھی، کبھی مذاق تو کبھی سنجیدگی سے۔ اور اسی بحث کے دوران خبریں بھی بنتی اور آن ایئر ہوتی دیکھیں۔

ایسی خبروں کی حساسیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ مرد حضرات ایسی ہیڈ لائنز بناتے تھے، جن کو شرمناک قرار دیا جا سکتا ہے (کسی عورت کے ساتھ ’دوشیزہ‘ اور ’خوبرو‘ کا استعمال آپ نے عام دیکھا ہو گا، لیکن کیا کبھی کسی مرد مجرم کو کسی نے ’وجیہہ‘ لکھا ہے؟) اور جب یہ خبریں ایک مخصوص ذہنیت سے لکھی جائیں تو اس کا دیکھنے والے کیا اثر لیتے ہوں گے، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔

کسی زمانے میں شام کا اخبار جسے ’زرد صحافت‘ کا نام دیا جاتا تھا، میں خواتین کے کردار کی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں، نیوز چینلز نے بھی وہی کام کیا لیکن تھوڑا لفظوں کا ہیر پھیر کر کے۔

نیوز روم میں ہی نور مقدم کے قتل کی خبر پر بےلاگ تجزیے سنے، جن میں نور کے کردار کی دھجیاں اڑائی گئیں اور اسے قتل کرنے والے ظاہر جعفر کے بارے میں یہ تک کہا گیا کہ اگر وہ اتنا وحشی تھا تو نور کو اندازہ ہو گا، پھر بھی وہ گئی، یہ تو ہونا ہی تھا۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موٹروے ریپ کیس میں متاثرہ خاتون کی شناخت چھپائی گئی لیکن جب پولیس افسر نے وکٹم بلیمنگ کی تو نیوز روم میں موجود ایک ایڈیٹر نے ڈیسک بجا کر کہا: ’یہ کی نا بات، میرا بھی یہی سوال ہے کہ محترمہ اتنی رات کو اکیلے نکلی کیوں؟‘

حال ہی میں اداکارہ صبا قمر نے سما ڈیجیٹل کے صحافی پر ہتک عزت کا کیس کیا ہے جنہوں نے اداکارہ کی کردار کشی ایک پوڈ کاسٹ میں کی تھی۔ انہی صاحب نے سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کے قتل کے بارے میں ایک پوڈ کاسٹ میں کہا تھا کہ ’لڑکی نے اپنے قتل کا خود دھوم دھام سے اہتمام کیا،‘ اور قاتل کے ساتھ اس کا نام جوڑ کر مزید سنسنی خیز باتیں کر کے خوب ریٹنگ کمائی۔

حالات یہ ہیں کہ سوشل میڈیا پر خواتین صحافی ہوں یا عام خواتین، سوشل میڈیا سٹار ہوں یو سیاسی ورکرز کوئی بھی، اس جتھے سے محفوظ نہیں جو خواتین کو گالم گلوچ ، کردار کشی، وکٹم بلیمنگ نہ کرتا ہو۔

اس ماحول میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ خواتین کر سکتی ہیں کہ تمام تر سیاسی، سماجی، نظریاتی فرق کو پس پشت ڈال کر اگر وہ یہ طے کر لیں کہ کسی بھی عورت کےخلاف ہونے والی وکٹم بلیمنگ، بہتان بازی، کردار کشی کو سب خواتین کے اوپر حملہ تصور کیا جائے گا اور اس پر سب اکٹھے آواز اٹھائیں گی، تو شاید فرق پڑ سکے۔

ایسے مردوں کی کمی نہیں جو خواتین پر حملوں کے خلاف کُڑھتے ہیں، انہیں بھی زیادہ سے زیادہ آواز اٹھانی چاہیے اور ایسے لوگوں کو وہیں روک دینا چاہیے جو ایسی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔

نیوز روم میں ہونے والی ایسی گفتگو کی ساتھی خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی مذمت کریں، تب بات بنے گی۔

دوسری طرف اگر یہ کردار کشی کوئی عورت بھی کرے تو اس کو بھی یہ احساس دلایا جائے کہ وہ بھی اس جرم میں شامل ہے، جو دوسرے کر رہے ہیں۔ اگر آج سے ہی اس بدتہذیبی کے منہ زور طوفان کو روکنے کے لیے بات کا آغاز کر دیا جائے تو اس کی شدت کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں