انڈین پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانا لاہور میں سموگ کا سبب

انڈین پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانا لاہور میں سموگ کا سبب

انڈین پنجاب کے کھیتوں میں فصلوں کی باقیات نذر آتش کرنے کا عمل لاہور اور گردونواح کے علاقوں میں سموگ کا سبب گیا ہے۔

انڈین پنجاب کے کاشت کار زمین کو اگلی فصل کے لیے تیار کرنے کے لیے فصلوں کی باقیات کو تیزی سے جلانے میں مصرف ہیں جس کی وجہ سے انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں بھی آلودگی بڑھ گئی ہے اور لوگوں کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔

پنجاب کے ضلع مانسا، جو نئی دہلی سے تقریباً 300 کلومیٹر دور ہے، آسمان نے نارنجی دھند کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور جلائے جانے والے دھان کی فصل باقی ماندہ حصے سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے جو اس رجحان کو نمایاں کرتا ہے جو برسوں کی سرکاری کارروائیوں کے باوجود بدستور برقرار ہے۔

نئی دہلی کے پڑوسی صوبوں ہریانہ اور پنجاب میں کھیتوں میں لگنے والی آگ آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جو اس وقت انڈین دارالحکومت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 400 سے اوپر شدید کی کیٹیگری میں گھوم رہا ہے۔

سرکاری سیٹلائٹ ڈیٹا سے پتہ چلا ہے کہ نومبر کے آغاز سے اب تک کھیتوں کی پرالی جلانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جو کسان اگلی بوائی سے پہلے زمین صاف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی شمالی انڈیا میں آلودگی کی بلند سطح کی ایک بڑی وجہ یہی آگ رہی ہے۔

کسانوں اور مقامی حکام کا کہنا ہے کہ بہتر متبادل کی کمی، پرانی عادتیں اور وسائل کی قلت آگ کو مسلسل بھڑکائے رکھتے ہیں حالاں کہ تقریباً 300 کلومیٹر دور دارالحکومت شدید آلودہ ہوا سے نبرد آزما ہے۔

پنجاب کے ضلع مانسہ کے 46 سالہ کسان دیدار سنگھ نے بدھ کو نومبر کو کہا کہ کسان مجبوری میں پرالی جلاتے ہیں، شوق سے نہیں، کیوں کہ ان کے پاس فنڈز اور مشینوں کی کمی کے باعث فصل کے باقی ماندہ حصے کو تلف کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ دھان کی فصل کے بعد گندم بونے کے لیے بہت تھوڑا وقت ملتا ہے۔ اس کم وقت میں مزدوری لگا کر کھیتوں کی پرالی صاف کرنا ممکن نہیں رہتا۔ سپر سیڈر جیسی مشینیں خریدنا یا کرائے پر لینا ان جیسے چھوٹے کسانوں کے لیے اکثر ناقابل برداشت خرچ ہوتا ہے۔

سنگھ اور ان کے پڑوسی کہتے ہیں کہ وہ صحت سے متعلق خطرات سے خوب واقف ہیں۔ وہ اسی دھوئیں بھرے ہوا میں کھانستے ہیں جو دہلی تک جا پہنچتی ہے لیکن حالات نے انہیں جکڑ رکھا ہے۔

دیدار نے مانسہ میں اپنے کھیتوں میں کھڑے ہوئے کہا کہ ’ہم بے بس ہیں، کیوں کہ کسان وہی ہوا آلودہ نہیں کرنا چاہتے جس میں خود وہ سانس لیتے ہیں اور یوں اپنے لیے مسائل بڑھاتے ہیں۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلعے کی ڈپٹی کمشنر نوجوت کور نے انتظامیہ کے نقطۂ نظر سے اس چیلنج کا اعتراف کیا۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے کسانوں کے لیے یہ سوچ کا مسئلہ ہے۔ انہیں فصل کی باقیات جلانا ہی سب سے آسان راستہ لگتا ہے۔ مالی رکاوٹیں بھی ہیں اور مشینری کی دستیابی کا مسئلہ بھی۔ اس طرح انہوں نے واضح کیا کہ پرالی جلانے کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟

ادھر انڈیا نے اپنی وفاقی دارالحکومت نئی دہلی اور ملحقہ علاقوں میں منگل 11 نومبر کو مزید سخت انسداد آلودگی اقدامات کیے ہیں کیوں کہ ہوا کے معیار کی سطح شدید کی حد تک گرتی چلی گئی۔
کمیشن فار ایئر کوالٹی مینیجمنٹ نے کہا کہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے ایکشن پلان کے تیسرے درجے کے اقدامات پر منگل کو اس بنیاد پر عمل درآمد شروع کیا گیا کہ ’ہوا کے معیار کے موجودہ رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید بگاڑ کو روکنے کی کوشش کی جا سکے۔‘

سٹیج تین کے تحت غیر ضروری تعمیرات پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور آلودگی پھیلانے والے فیول استعمال کرنے والی صنعتی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں لگتی ہیں۔
سردیوں میں دہلی اور اس کے گرد و نواح کے اضلاع پر اکثر سموگ چھائی رہتی ہے کیوں کہ سرد اور کثیف ہوا گاڑیوں، تعمیراتی مقامات اور فصلوں کی باقیات جلانے جانے سے اٹھنے والی آلائش کو اپنے اندر قید کر لیتی ہے، جس سے آلودگی کی سطح دنیا کی بلند ترین سطحوں میں جا پہنچتی ہے اور دارالحکومت کے تین کروڑ باسیوں کو شدید سانس کی بیماریوں کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں