افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِاعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے بدھ کو کابل میں افغان تاجروں کو ہدایت کی کہ وہ پاکستان کے بجائے متبادل تجارتی راستے اور منڈیاں تلاش کریں۔
کابل میں ایک پریس کانفرنس میں ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو پاکستان پر انحصار کرنے کے بجائے تجارت کے متبادل راستے تلاش کرنے چاہئیں۔
’ان راستوں نے نہ صرف ہمارے تاجروں کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ بازاروں اور عام لوگوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کی ہیں۔ میں تمام تاجروں پر زور دیتا ہوں کہ وہ درآمدات اور برآمدات کے لیے متبادل آپشنز کے لیے جلد از جلد کوشش کریں۔‘
گذشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد پاکستان نے واضع کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد ہی باہمی تجارت بحال کی جائے گی۔
اکتوبر میں دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں اموات کے بعد سرحدی گزرگاہیں تقریباً ڈیڑھ ماہ سے بند ہیں۔
سرحدی بندشوں کے باعث دونوں ممالک میں بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تازہ پھل، سبزیاں، معدنیات، ادویات، گندم، چاول، چینی، گوشت اور ڈیری مصنوعات دونوں ممالک کے درمیان 2.3 ارب ڈالر سالانہ تجارتی حجم کا بڑا حصہ ہیں۔
افغانستان کی وزارت تجارت نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں پھنسے ہوئے تقریباً آٹھ ہزار افغان تجارتی کنٹینرز کو نکالنے کے لیے پاکستانی حکام سے بات چیت جاری ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان طورخم اور چمن جیسی مصروف سرحدی گزرگاہیں ایک ماہ سے بند ہیں۔ ہر قسم کی آمدورفت و تجارتی سرگرمیاں سب بند ہیں تاہم واپس لوٹنے والے پناہ گزینوں کو جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
پر پاکستان باندې د سوداګرۍ د تکیې کمولو لپاره د هېواد صنعتکارانو، سوداګرو او د مالیې محترم وزارت ته د ریاستالوزراء اقتصادي مرستیال محترم ملا عبدالغني برادر اخوند سپارښتنې: https://t.co/QgkIg9hQwY
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 12, 2025
اس سے ایک روز قبل افغان وزارت تجارت نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کے ساتھ تجارتی رکاوٹوں پر گفتگو کی بلکہ ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت کے نئے امکانات پر روشنی ڈالی۔
پاکستان میں قبائلی عمائدین، سیاسی اور سول سوسائٹی کے اراکین، کسٹم کلیئرنگ ایجنٹوں، ٹرانسپورٹرز اور مزدوروں نے بھی منگل کو طورخم کراسنگ دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔
ملا برادر نے پاکستان پر زور دیا کہ اگر وہ اس بار افغانستان کے ساتھ تجارتی راستے دوبارہ کھولنا چاہتا ہے تو اسے اس بات کی پختہ ضمانت دینی چاہیے کہ یہ راستے کسی بھی صورت میں دوبارہ بند نہیں ہوں گے۔
انہوں نے پاکستان سے درآمد کی جانے والی ادویات کے ناقص معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اعلان کیا کہ ادویات کے درآمد کنندگان کے پاس اپنے اکاؤنٹس بند کرنے اور وہاں کاروباری معاملات ختم کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے صحت کے شعبے کا بنیادی مسئلہ پاکستان سے کم معیار کی ادویات کی درآمد ہے۔ ’میں تمام ادویات کے درآمد کنندگان سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر سپلائی کے متبادل راستے تلاش کریں۔ جن لوگوں کے پاس پاکستان میں کنٹریکٹ یا خریداری ہے انہیں اپنے اکاؤنٹس کو طے کرنے اور اپنا کام ختم کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے یقین دلایا کہ افغانستان کو اب درآمدات اور برآمدات کے لیے متبادل تجارتی راستوں تک رسائی حاصل ہے اور خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے معاشی تعلقات ماضی کے مقابلے میں نمایاں طور پر پھیلے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت علاقائی اور عالمی رابطوں کے لیے نئے متبادل راستوں کے قیام اور موجودہ راستوں کو تکنیکی اور بنیادی ڈھانچے کے لحاظ سے مزید معیاری اور موثر بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔
ملا برادر نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کو اکثر سیاسی دباؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور یہ کہ تجارتی تعلقات اور پناہ گزینوں کے مصائب کو غیر منطقی سیاسی مقاصد کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ جب تجارت کی بات آتی ہے تو تمام ممالک ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں۔
طالبان حکومت کا مؤقف ہے کہ پاکستان نے گذشتہ چار برسوں میں تجارتی وعدے پورے نہیں کیے تاہم پاکستانی اقتصادی ماہرین اس مؤقف کو یک طرفہ اور غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سرحدوں کی بندش ہمیشہ سیکیورٹی، سمگلنگ اور انتظامی وجوہات کی بنیاد پر کی جاتی ہے نہ کہ سیاسی دشمنی یا تعصب کی بنیاد پر۔
افغانستان کی وزارت تجارت نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں پھنسے ہوئے تقریباً آٹھ ہزار افغان تجارتی کنٹینرز کو نکالنے کے لیے پاکستانی حکام سے بات چیت جاری ہے۔
