دنیا ذرا سا چین کا سانس لے سکتی ہے کیوں کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان جنگ ہونے نہیں جا رہی، کم از کم ابھی نہیں۔ امریکہ اور چین کے صدور اپنی ملاقات سے پہلے جنوبی کوریا کی بندرگاہ بوسان میں کیمروں کے سامنے طویل مصافحہ کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ خوش نظر آئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حسب معمول مبالغہ آرائی کی۔ انہوں نے ملاقات کو ’10 میں سے 12‘ اور ’بہت بڑی کامیابی‘ قرار دیا۔ شی جن پنگ نے کہا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ’اتفاق رائے‘ ہو گیا ہے اور شراکت داری کی امید ظاہر کی، جب کہ یہ بھی تسلیم کیا کہ اختلافات موجود ہیں۔
تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نایاب زمینی دھاتوں کی برآمد پر اعلان کردہ پابندیاں کو مؤخر کر رہا ہے، جب کہ ٹرمپ نے سزا کے طور پر 100 فیصد محصولات کے نفاذ میں تاخیر اور ان اشیا پر محصولات کم کرنے پر اتفاق کیا ہے جنہیں امریکہ فنٹنائل نامی نشے سے منسلک سمجھتا ہے۔ چین نے امریکی زرعی مصنوعات کی درآمدات بڑھانے کا عہد کیا ہے۔
بظاہر بات چیت کی توجہ فوری دو طرفہ اقتصادی مسائل پر رہی، جب کہ روس اور یوکرین کی جنگ پر چین کے مؤقف کے ساتھ ساتھ تائیوان کے حوالے سے اس کے ارادوں، جو امریکہ اور چین کے تعلقات میں مرکزی سکیورٹی مسئلہ ہے، کو اس ملاقات کے لیے حد سے زیادہ پیچیدہ سمجھ کر فی الحال ایک طرف رکھ دیا گیا۔
لیکن بظاہر جو محدود پیش رفت ہوئی ہے وہ بھی کچھ نہ کچھ ہے۔ یہ کہ ملاقات سرے سے ہو ہی گئی، اسے کبھی یقینی نہیں سمجھا جا سکتا تھا، اور نتائج کسی بڑی پیش رفت کی بجائے ایک عبوری بندوبست زیادہ محسوس ہوتے ہیں، مگر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق ایک مثبت بات ہے۔
کچھ تنقید صرف بڑھا چڑھا کی گئی توقعات کی عکاسی ہی نہیں کرتی، بلکہ سفارت کاروں، سیاست دانوں اور ہاں، میڈیا کی اس ناکامی کی بھی کہ وہ اس بات کو قبول کریں کہ ٹرمپ ’بیرونی دنیا‘کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔
شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا کو قبول کر لیں جہاں طاقتور رہنما آپس میں ملتے اور بات کرتے ہیں۔ جزیات اور یہاں تک کہ بغیر کسی ایسے مقررہ ایجنڈا کے جو سفارتی نمائندوں کے درمیان ہونے والی پیشگی ملاقاتوں میں طے پایا ہو۔
یقیناً اس انداز میں خطرات موجود ہیں جس کی واضح مثال یوکرین کے ولودی میر زیلینسکی کے خلاف وائٹ ہاؤس کی تباہ کن چال ہے۔ لیکن یہ 2019 کے بعد ٹرمپ اور شی کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی، اور بہت کچھ بدل چکا ہے، یہاں تک کہ اسے مناسب طور پر سربراہ ملاقات کی بجائے تیاری کی ملاقات کہا جا سکتا ہے۔ اسی سبب اس نے امریکہ اور چین کے تعلقات میں اورجس حد تک امریکہ میں محصولات کے بارے میں ٹرمپ کا جنونی پن اور جاری عدالتی لڑائیاں اجازت دیں، بین الاقوامی تجارتی نظام میں بھی کچھ حد تک استحکام پیدا کیا ہے۔
لیکن نتائج جتنی ہی قابل توجہ بات علاقائی تناظر بھی ہے۔ جب ٹرمپ جنوبی کوریا پہنچے تو وہ ایک ایسے سفر کے آخری مرحلے میں تھے جس میں شاید اتنی زیادہ اہم منزلیں شامل تھیں جتنی کسی حالیہ امریکی صدر کے کسی ایک دورے میں نہیں رہیں۔
قطر میں ٹرمپ نے مختصر قیام کیا تاکہ غزہ میں جنگ بندی پر پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے۔ پھر ملائیشیا میں ایک دن گزارا گیا تاکہ، دیگر کے علاوہ ویت نام کے ساتھ، تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے جائیں۔
ملائیشین وزیراعظم کے ساتھ مل کر کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان دشمنی ختم کرنے کے لیے ایک امن معاہدے کا اعلان کیا جائے اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک (آسیان) کی سالانہ سربراہی ملاقات میں حاضری دی جائے، جس کی میزبانی ملائیشیا 10 سال بعد پہلی بار کر رہا تھا۔ اس کے بعد وہ جاپان گئے، جہاں نئے وزیراعظم سے ملے اور، جیسے ہر جگہ کیا، محصولات اور تجارت پر گفتگو کی، ساتھ ہی بحرالکاہل کی سکیورٹی پر بھی بات کی۔
لیکن سب سے زیادہ بے تابی سے جس مرحلے کا انتظار تھا وہ یہی آخری مرحلہ تھا، یعنی ایشیا پیسیفک اقتصادی تعاون کی سمٹ سے پہلے شی جن پنگ سے ملاقات۔
وسیع پیمانے پر یہ احساس تھا کہ اگر عالمی امن کا نہیں تو کم از کم عالمی تجارتی نظام کا مستقبل نازک توازن میں معلق رہ سکتا ہے، اور خدشہ تھا کہ ٹرمپ کے غیر مستقل مزاج رویے کے ساتھ شی کی کسی قسم کی رعایت نہ دینے کی ممکنہ روش مل کر دو طرفہ تعلقات کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امریکہ اور چین کے تعلقات میں اب سب کچھ آسانی سے چلنے لگا ہے، چاہے توجہ صرف اقتصادی اور تجارتی محاذ تک محدود ہی کیوں نہ ہو۔ اتفاق سے میں کوالا لمپور میں تھا جب ٹرمپ نے آسیان سمٹ میں حاضری دی، اور وہاں سے دو مشاہدات ہیں جو، اگر اگلے مرحلے میں کیا ہو سکتا ہے اس پر نہیں بھی، تو طویل مدت پر اثر رکھتے ہیں۔
ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے آغاز سے وہ بین الاقوامی منظرنامے پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں جیسے کم ہی رہنما چھائے۔ اس کے باوجود ان کا قیام وہ ہمہ گیر، سرخیوں پر چھا جانے والا واقعہ نہیں تھا جو مغربی دنیا میں ہو سکتا تھا۔ ٹرمپ اور شی کی ملاقات کے حوالے سے توقعات پر بھی یہی بات صادق آتی تھی۔
اس علاقائی تناظر میں ٹرمپ اپنے گھر کے مقابلے میں یہاں کم اثر انگیز، کسی حد تک چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دنیا کا ایک ہلچل بھرا، تیز رفتار، مصروف خطہ ہے جو زیادہ تر غیر مغربی، بلکہ حقیقتاً کچھ ٹرمپ طرز کی، سوداگرانہ اقدار کے تحت چل رہا ہے، اور ایک محسوس رجحان ہے کہ یہ بتدریج چین کی طرف نئی اور پرانی بالادست طاقت کے طور پر رخ کر رہا ہے۔ ترجیح کسی ایک طرف جانا نہیں بلکہ تصادم سے گریز ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تشویش اس بات پر ہے کہ ویت نام، کمبوڈیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے ساتھ ٹرمپ کے تجارتی معاہدوں کا سلسلہ چین کی خطے میں بڑھتی ہوئی معاشی پہنچ کو کم از کم سست کرنے، اگر مکمل طور پر روک نہ بھی سکے، کی کوشش کا حصہ ہے، جب کہ امریکہ کے دیرینہ اتحادیوں، جاپان، جنوبی کوریا، کے دوروں کو تجارت کی بجائے سکیورٹی کے زاویے سے دیکھا گیا۔
کچھ لوگوں نے آسیان سمٹ میں ٹرمپ کی مختصر موجودگی کو اس اشارے کے طور پر بھی دیکھا کہ امریکہ اس تنظیم کو امریکہ اور مغرب کے قریب لانے اور اسے اپنے موجودہ نازک توازن قائم رکھنے کی حکمت عملی سے دور کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ کی ترجیحات تجارت سے وابستہ ہیں۔ تجارت بذات خود اچھی چیز بھی اور تصادم سے بچنے کا ذریعہ بھی۔ ٹرمپ جنوب مشرقی ایشیا کی صلاحیت دونوں حوالوں سے دیکھتے ہیں اور ان کی ترجیح چین کے ساتھ ایسے سودے کرنا ہے جو بحرالکاہل میں پرامن مسابقت کا موقع دیں۔ اگرچہ (اور مسئلہ یہی ہے) کہ یہ سب کچھ امریکہ کی شرائط پر ہو۔ وعدے کے مطابق چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات جیسے جیسے آگے بڑھیں گے، یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ کتنی بڑی رکاوٹ ہے۔
