پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش میں ٹی ٹی پی کا نائب کمانڈر مارا گیا: فوج

پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش میں ٹی ٹی پی کا نائب کمانڈر مارا گیا: فوج

پاکستانی فوج نے جمعرات کو کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی محسود کا نائب سرحد پار افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں فوج سے جھڑپ میں مارا گیا۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے، خصوصاً  کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں سرگرم ہے اور وہاں سے پاکستان میں حملوں میں مصروف ہے اور طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے، تاہم طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ 29 اور 30 کی درمیانی شب سکیورٹی فورسز نے ضلع باجوڑ میں پاکستان افغانستان سرحد کے قریب ایک گروہ کی نقل و حرکت کو بروقت محسوس کیا، جو سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

’مہارت سے کی گئی کارروائی میں اہم خارجی رہنما امجد عرف مزاحم سمیت چار خوارج مار دیے گئے۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں مزید کہا گیا: ’مارا گیا خارجی کمانڈر امجد، خارجی نور ولی محسود کا نائب اور انڈین آلہ کار تنظیم فتنہ الخوارج کی رہبر شوریٰ کا سربراہ تھا۔ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو طویل عرصے سے مطلوب تھا اور حکومتِ پاکستان نے اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے اندر متعدد دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ عسکریت پسندوں کی قیادت افغانستان میں موجود رہتے ہوئے پاکستان کے اندر دراندازی کی کوششیں کر رہی ہے۔

 ’پاکستان ایک بار پھر اس امر پر زور دیتا ہے کہ عبوری افغان حکومت عملی اقدامات کرے تاکہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔ یہ واقعہ اس موقف کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ افغان سرزمین بدستور فتنہ الخوارج کے خوارج کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔‘

بلوچستان میں دو علیحدہ کارروائیاں، 18 عسکریت پسند مارے گئے: فوج

اس سے قبل پاکستانی فوج نے جمعرات کو کہا تھا کہ 28 اور 29 اکتوبر کو بلوچستان میں دو علیحدہ کارروائیوں کے دوران انڈین پراکسی ’فتنہ الہندوستان‘ سے تعلق رکھنے والے 18 عسکریت پسند مارے گئے۔

 پاکستانی حکام بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں کو انڈین پراکسی ’فتنہ الہندوستان‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ تنظیمیں سکیورٹی فورسز، حکومتی تنصیبات اور ترقیاتی منصوبوں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں۔ اسلام آباد ان تنظیموں پر انڈیا سے مالی اور لاجسٹک مدد کا بھی الزام لگاتا ہے، جسے نئی دہلی مسترد کرتا ہے۔ 

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’ضلع کوئٹہ میں واقع چلتن پہاڑوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر خفیہ اطلاعات پر مبنی ایک آپریشن کیا گیا۔‘

بیان کے مطابق کارروائی کے دوران پاکستانی فوج نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا اور شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد ’انڈین حمایت یافتہ 14 دہشت گردوں‘ کو مار دیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں ایک اور خفیہ اطلاع پر مبنی کارروائی کی گئی، جہاں عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے کو تباہ کرتے ہوئے چار عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ مارے گئے عسکریت پسند دہشت گردی کی متعدد سرگرمیوں میں ملوث رہے تھے، جن کے قبضے سے اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں سینیٹائزیشن کارروائیاں جاری ہیں تاکہ کسی بھی دیگر انڈین حمایت یافتہ عسکریت پسند کا خاتمہ کیا جا سکے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے وفاقی ایپکس کمیٹی کی منظور شدہ قومی ایکشن پلان کے تحت عزمِ استحکام کے وژن کے مطابق انسدادِ دہشت گردی مہم پوری قوت سے جاری رہے گی تاکہ بیرونی حمایت یافتہ دہشت گردی کے ناسور کو ملک سے مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔‘



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں