انڈیا کے بعد اب پاکستان کی افغانستان سے بھی پانی کے معاملے پر جنگ؟

انڈیا کے بعد اب پاکستان کی افغانستان سے بھی پانی کے معاملے پر جنگ؟

پاکستان اور افغانستان کے سرحد پر تو کشیدگی کا ماحول جاری ہے، لیکن دوسری طرف اب ایک اور محاذ پر بھی رسہ کشی شروع ہو گئی ہے، اور وہ ہے پانی کی تقسیم، جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک اور دراڑ پیدا ہو گئی ہے۔

استنبول میں پاک افغان امن مذاکرات کے دوران ہی افغان حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ اعلان براہِ راست طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے آیا ہے۔ افغان وزیر برائے پانی اور توانائی عبدالطیف منصور نے کہا ہے کہ افغانستان کو اپنا پانی اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم بیرونی کمپنیاں نہیں بلکہ خود افغان کمپنیاں بنائیں گی۔ 

اس سے قبل انہوں نے اپریل میں کہا تھا کہ اس منصوبے پر دو سے تین ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ 

یہاں یہ واضح کر دوں کہ یہ منصوبہ نیا نہیں ہے، اور اس پر کئی عشروں سے مختلف افغان حکومتیں غور کرتی چلی آئی ہیں۔ بلکہ 2013 میں حامد کرزئی اور نواز شریف کا ادوار میں کنڑ ڈیم منصوبے پر دونوں ملکوں کے بیچ ایک معاہدہ بھی ہو چکا ہے، مگر ظاہر ہے کہ موجودہ افغان حکومت سابق معاہدوں کو نہیں مانتی۔

اگر اس دریا کے پانی کا بہاؤ متاثر ہوا تو پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیوں اس دریا کا دریائے کابل کے پانیوں میں 75 فیصد حصہ ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کو سالانہ ایک کروڑ 65 لاکھ ایکڑ فٹ پانی فراہم کرتا ہے، اس سے زمینیں سیراب ہوتی ہیں، پینے کا پانی ملتا ہے اور اسی پر ورسک بجلی گھر بھی قائم ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن نقشے پر دیکھیں تو پتہ چلے گا 480 کلومیٹر طویل دریائے کنڑ دراصل پاکستان کے ضلع چترال کے چیانتر گلیشیئر سے نکلتا ہے۔

طالبان جب سے اقتدار میں آئے ہیں، پانی کے معاملے پر بہت توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے آمو دریا سے 285 کلومیٹر لمبی قوشی تیپی نہر نکالی ہے جس کا ہدف ساڑھے پانچ لاکھ ہیکٹر زمین سیراب کرنا ہے۔ اس نہر پر ازبکستان اور ترکمانستان دونوں تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ اس سے آمو دریا کے پانی کا بہاؤ 25 سے 30 فیصد تک متاثر ہو سکتا ہے۔

انڈیا بھی افغانستان میں پانی کے منصوبوں کے لیے تعاون فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ افغان انڈیا فرینڈشپ ڈیم افغانستان کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ہے جسے انڈیا نے تعمیر کروایا تھا اور وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس کا افتتاح کیا تھا۔

اسی ماہ جب افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے انڈیا کے دورے میں بھی افغانستان میں پانی اور بجلی کے منصوبوں میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔

ایسے وقت میں جب پاکستان کا انڈیا کے ساتھ مشرقی دریاؤں پر تنازع چل ہی رہا تھا کہ اب مغربی سرحد کی طرف سے بھی پانی کا مسئلہ سامنے آ گیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس معاہدہ موجود ہے (اگرچہ اس وقت وہ بھی تعطل کا شکار ہے)، مگر افغانستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، اس لیے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

تاہم پاکستان کے ایک ترپ کا پتہ موجود ہے۔ اور یہ ہے کہ پاکستان دریائے چترال کے پانی کو موڑنے کے منصوبے پر غور کر رہا ہے، جس کے تحت اس دریا کا رخ سوات کی طرف کر دیا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے راستے میں بلند و بالا پہاڑ آتے ہیں جن کے اندر سے سرنگ نکال کر ہی دریا کو موڑا جا سکتا ہے۔ انجینیئرنگ کے نقطۂ نظر سے یہ منصوبہ انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کثیر تعداد میں زلزلے بھی آتے رہتے ہیں اس لیے اتنے بڑے انفرا سٹرکچر کی عمر پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔

لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ منصوبے انتہائی مہنگے پڑیں گے اور یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں