مارکیٹیں بند اور جلاؤ گھیراؤ، صوبائی حکومت کا وفد کرم کے لیے روانہ

مارکیٹیں بند اور جلاؤ گھیراؤ، صوبائی حکومت کا وفد کرم کے لیے روانہ

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کی تحصیل پاڑہ چنار میں 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 42 اموات کے بعد علاقے میں احتجاج جاری ہے جس کے بعد صوبائی حکومت کے وفد کو امن و امان کی بہتری کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔

ہفتے کو صوبائی محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈووکیٹ، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، کمشنر کوہاٹ ڈویژن، ڈی آئی جی کوہاٹ اور ڈی پی او سمیت دیگر اعلی افسران پر مشتمل وفد کرم کے حالات کا جائزہ لینے اور امن و امان کی بحالی کے لیے جرگے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کرم روانہ ہو گیا۔

وفد دورے کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔

پاڑہ چنار میں تین روزہ سوگ کے اعلان کے سلسلے میں آج مارکیٹیں تیسرے روز بھی بند ہیں۔

اپر کرم کے پولیس کنٹرول روم کے اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ روز پاڑہ چنار میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آج تمام مارکیٹیں اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں، جبکہ ٹل-پاڑہ چنار روڈ بھی واقعے کے بعد سے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

پاڑہ چنار کے مقامی صحافی راشد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضروری اشیا جیسے نانبائی کی دکانیں صرف کھلی ہیں، باقی تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ علاقے میں سوگ کا سماں ہے، لواحقین کی جانب سے گذشتہ روز اپنے پیاروں کو دفنایا گیا۔

پاڑہ چنار اور لوئر کرم میں جھڑپیں

پاڑہ چنار کے داخلی راستے پر گذشتہ روز بابِ کرم کے نام سے سڑک پر بنے ایک دروازے کو مظاہرین کی جانب سے جلایا گیا۔

لوئر کرم کے پولیس کنٹرول روم کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ روز شام کے وقت کچھ مظاہرین نے مرکزی بگن بازار میں دکانوں کو آگ لگائی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بازار کے دکانوں کو آگ لگانے سے نقصان پہنچا ہے، جبکہ بازار کے قریبی گھروں کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔

اہلکار نے بتایا، ’اس کے بعد حالات پر قابو پالیا گیا ہے اور ابھی صورتحال کنٹرول میں ہے۔‘

بگن سے تعلق رکھنے والے ایک رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسلح افراد آگئے اور بگن بازار اور گھروں کو آگ لگا دی، جس میں ہمارا گھر بھی جل گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اسی دوران بیمار والدہ کو مشکل سے گھر سے نکال کر قریبی پہاڑی کی جانب لے گیا، تاہم والد ضد کر رہے تھے کہ وہ کسی صورت گھر نہیں چھوڑیں گے۔ ’ان کی منتیں بھی کیں لیکن وہ نہ مانے۔‘

انہوں نے مزید بتایا، ’ہمارے گھر میں سب کچھ جل گیا ہے، جبکہ اسی دوران جب والدہ کو ریسکیو کیا تو یہی سوچ رہا تھا کہ والد کا کیا ہوگا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ گھر کو آگ لگانے کے بعد وہ خود قریبی پہاڑی جا کر بچ گئے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب علاقے کے لوگ مورچوں میں بیٹھے ہیں، جبکہ ہم علاقے سے منتقلی کی کوشش کر رہے ہیں اور پشاور جانے کا پلان بنا رہے ہیں۔‘

بگن وہ علاقہ ہے جس کی حدود میں 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے کانوائے پر حملہ کیا گیا تھا۔

کب کیا ہوا؟

خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کرم کے علاقے اوچت میں پولیس کے مطابق تقریباً 200 مسافر گاڑیوں کے کانوائے پر نامعلوم مسلح افراد نے جمعرات کو اچانک فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں پانچ خواتین سمیت 42 افراد جان سے گئے اور 19 زخمی ہوئے۔

مسافر گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے بعد ٹل-پاڑہ چنار روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے، جبکہ علاقے میں موبائل سگنلز اور انٹرنیٹ بھی متاثر ہیں۔



Source link

اپنا تبصرہ لکھیں