افغانستان میں طالبان حکومت نے جمعرات کو رواں ماہ کے وسط میں ایران اور پاکستان کی سرحد پر دھماکوں اور فائرنگ سے افغان شہریوں کی اموات کی تصدیق کر دی ہے۔
پاکستان اور ایران کی سرحد پر 14 اور 15 اکتوبر کے دوران افغان شہریوں کی مبینہ طور پر ایرانی فورسز کی فائرنگ سے اموات کی رپورٹس پر افغانستان کی عبوری حکومت نے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی۔
افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد ابراہیم کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی میں وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس ادارے کے نمائندے بھی شامل تھے، جسے معاملے کی جلد تحقیقات کرکے رپورٹ وزیراعظم ہاؤس میں جمع کروانے کی ہدایت دی گئی تھی۔
طالبان حکومت کے نائب ترجمان ملا حمد اللہ فطرت نے جمعرات کو ایک بیان میں بتایا کہ کمیٹی کی جانب سے جمع کیے گئے شواہد کی بنا پر یہ بات سامنے آئی کہ ایران کی وادی کالگان میں افغان شہریوں پر فائرنگ کی گئی تھی۔
حمد اللہ فطرت کے مطابق اب تک اس واقعے میں جان سے جانے والے ’دو شہیدوں اور 34 زخمی عینی شاہدین کو افغانستان روانہ کر دیا گیا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’کچھ مزید افغان شہری اب بھی ایران اور پاکستان میں ہیں اور کمیٹی انہیں ڈھونڈنے اور منتقل کرنے میں مصروف ہے۔‘
اگرچہ کمیٹی نے یہ نہیں بتایا کہ اس واقعے میں کتنے افراد کی اموات ہوئیں، تاہم دو ہفتے قبل اس واقعے کے بارے میں پہلی غیر مصدقہ اطلاعات میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران اور پاکستان کی سرحد پر 250 کے قریب افغان شہری مارے گئے تھے۔
طالبان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ ’حتمی تفصیلات دیگر تحقیقات مکمل ہونے کے بعد جاری کی جائیں گی۔‘
واقعے کے بعد بعض میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ سرحد پر فائرنگ سے زخمی ہونے والے کچھ افراد کو سرحد پار پاکستانی ضلع واشک کی سب ڈویژن ماشکیل بھی لایا گیا، تاہم ضلع واشک کے ڈپٹی کمشنر نعیم عمران نے ان رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماشکیل میں اس مبینہ واقعے میں جان سے جانے والے یا زخمی شخص کو نہیں لایا گیا۔
ضلع واشک سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی اسماعیل عاصم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس علاقے کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ یہاں واقعہ ہوا ہے، اسی راستے سے غیر قانونی طور پر تارکین وطن ایران داخل ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ’سرحد پر لوگ ایجنٹس کے ذریعے بھجوائے جاتے ہیں، جہاں ان کی رہائش کے لیے جگہ موجود ہوتی ہے۔
’اس کے بعد افغانستان اور ایران میں موجود ایجنٹس انہیں ایران اور اس کے بعد ترکی بھجواتے ہیں۔‘
اسماعیل کے مطابق سرحد پر کچھ دن گزارنے کے بعد انہیں سراوان کے علاقے کلاگن منتقل کیا جاتا ہے، جہاں سے سرحد کو پانچ سے 10 کلومیٹر پیدل پار کرنا ہوتا ہے اور اگر راستہ خراب ہو یا کوئی ناکہ بندی ہو تو رات کی تاریکی میں بھی سرحد پار کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے اسسٹنس مشن (یوناما) نے بھی افغان شہریوں کی ایرانی سرحد پر مبینہ اموات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
یو این مشن نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ مشن کو 14 اور 15 اکتوبر کے دوران سامنے آنے والی پریشان کن رپورٹس پر تشویش ہے، جس میں ایران کے سرحدی علاقے کلاگن میں افغان شہریوں کی مبینہ اموات کا ذکر ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا: ’ہم اس مبینہ واقعے کی آزادانہ تحقیق کا مطالبہ کرتے ہیں اور تمام پارٹیوں کو یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت پناہ گزینوں، تارکین وطن اور پناہ لینے والوں کے حقوق محفوظ ہیں۔‘