ایک فٹبال کوچ اور پناہ گزینوں کی وکیل، اقرا اسماعیل، کو شارٹس کے بجائے ٹریک سوٹ پہننے پر ایک میچ میں شرکت سے روک دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شارٹس پہننا ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہے۔ اقرا، جو صومالیہ کی سابق کپتان ہیں اور ہل ٹاپ ایف سی کی بانی بھی ہیں، نے یونائیٹڈ ڈریگنز ایف سی کے لیے کھیلنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن مغربی لندن سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ کھلاڑی کو میدان میں اترنے سے روک دیا گیا۔
اقرا نے کہا، “جب میں میدان میں آئی تو ریفری نے کہا کہ شارٹس کے بغیر کھیلنے کی اجازت نہیں۔ میں پانچ سالوں سے ایک ہی لیگ میں ٹریک سوٹ پہنتی رہی ہوں اور کبھی شارٹس نہیں پہنیں۔” اقرا نے مزید کہا کہ وہ اپنے عقائد کی وجہ سے شارٹس میں خود کو آرام دہ محسوس نہیں کرتیں۔
اقرا نے بتایا کہ وہ ہمیشہ کھیل کے دوران مکمل لباس پہنتی ہیں، جس میں لمبی بازو کا ٹاپ، ٹیم کی شرٹ، کھیلوں کا حجاب، اور ٹریک سوٹ شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان جیسے بہت سی مسلمان خواتین کھیل میں شریک ہونے کی خواہشمند ہیں لیکن شارٹس پہننے میں عدم اطمینان کی وجہ سے وہ کھیل سے دور رہتی ہیں۔
گریٹر لندن ویمنز فٹبال لیگ، جس کا حصہ یونائیٹڈ ڈریگنز ایف سی ہے، نے ایف اے کے اس اصول کی پیروی کی ہے جس کے مطابق ٹریک سوٹ صرف گول کیپرز ہی پہن سکتے ہیں۔ اقرا کا کہنا ہے کہ ایف اے نے اصولوں میں نرمی کی ہدایت دی ہے تاکہ مذہبی عقائد کے ساتھ مطابقت رکھی جا سکے، مگر لیگ انتظامیہ اس پر عمل درآمد میں ناکام رہی۔
اسماعیل نے بطور کوچ بھی ایف اے کے نرم رویے کا حوالہ دیا، لیکن لیگ نے اصولوں کی سختی سے پیروی کرنے پر اصرار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں نے مسلم خواتین کے لیے محفوظ اور جامع ماحول کے لیے ہمیشہ کوشش کی ہے۔ ہم نے مسلم خواتین کو راحت دینے کے لیے ایسے ایونٹس کی میزبانی کی ہے جہاں وہ فٹبال سے لطف اندوز ہو سکیں، جیسے کہ شراب سے پاک فائنل میچ کی تقریبات۔”
اقرا کا ارادہ ہے کہ وہ ایف اے اور لیگ کے ساتھ مل کر کام کریں گی تاکہ ان قوانین میں تبدیلی لائی جا سکے اور بین الاقوامی سطح پر بھی ان اصولوں میں اصلاحات کا آغاز ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ “کھلاڑی کے طور پر آپ کو اپنی ثقافت اور شناخت کے ساتھ کھیل میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ ذاتی طور پر ایک چیلنج ہے، لیکن یہ صرف مجھ تک محدود نہیں بلکہ ایک بڑا مقصد ہے۔”
ایف اے نے اس مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اقرا کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہے تاکہ کھیل میں مذہبی آزادی اور جامعیت کو یقینی بنایا جا سکے۔