جی ہاں اے آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بعد اب بہت سارے فنکار اورصدا کاراے آئی کمپنیوں پر مقدمے کے لیے عدالت سے رجوع کر رہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اے آئی کمپنیوں نے اپنے اے آئی ماڈلز میں کسی نہ کسی طرح سے ان کی آواز، تحریر، تقریر، ان کی تصاویر، رنگ یا مزاج کو چرایا ہے۔
اس ضمن میں تازہ خبر یہ ہے کہ امریکا کے دو مشہور صداکاروں نے آرٹیفیشل انٹیلیجینٹس کی ایک نئی کمپنی Lovo پر ایک مقدمہ درج کیا ہے یہ مقدمہ مین ہٹن کے وفاقی کورٹ میں گزشتہ دنوں درج کیا گیا اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ کمپنی نے ان صداکاروں کی آوازکو کاپی کیا ہے اور ان کی اجازت کے بغیر اے آئی وائس اوور ٹیکنالوجی میں شامل کیا ہے۔
مقدمہ درج کرانے میں ایک خاتون لینیا سیج جبکہ دوسرے پال اسکائی لہرمین شامل ہیں انہوں نے سان فرانسسکومیں بننے والی نئی لوووکمپنی پر مقدمہ درج کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کمپنی مختلف صارفین کو اے آئی پر مبنی آوازیں بھیجتی ہیں تاہم انہوں نے اجازت لیے بغیر ان دونوں صداکاروں کی ہوبہو آوازوں کے نمونوں کو نہ صرف شامل بھی کیا ہے بلکہ وہ اسے فروخت بھی کر رہی ہے، ان دونوں نے کمپنی پر پچاس لاکھ ڈالر کا حرجانہ عائد کیا ہے۔
ان دونوں صداکاروں کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ان کی آواز کی پچ کو بغیر اجازت استعمال کیا ہے اور یہ فراڈ کے مرتکب ہوئے ہیں اورغلط ایڈورٹائیزنگ کے ذریعے عوام کے حقوق کو سلب کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی بہت ساری ٹیکنالوجی کمپنیوں پر اس طرح کے مقدمات درج کیے جاچکے ہیں جن میں بڑی تعداد اے آئی کمپنیوں کی ہے، ان کمپنیوں نے نہ صرف آواز بلکہ کتابیں، نیوز آرٹیکل، حتیٰ کہ گانوں کے اشعار بھی چرائے ہیں انہیں کسی نہ کسی شکل جنریٹیو اے آئی میں شامل کیا ہے۔
اس موقع پر دونوں مدعین کے وکیل اسٹیوکوہن کا کہنا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ کسی کی بھی حق تلفی نہ ہواور یہی وجہ ہے انہوں نے لووو کمپنی پر یہ مقدمہ کیا ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کمپنی نے اب تک کتنے لوگوں کی آوازوں کو چرا کر انہیں اے آئی سسٹم میں شامل کیا اور اس کے ذریعے آگے بڑھایا ہے۔